پیکا ایکٹ صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے،صحافی سراپا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ورکرز)کی صدر سعدیہ کمال، جنرل سیکرٹری شاہد علی، سینئر نائب صدر ناصر شیخ، نائب صدر توصیف احمد ، انفارمیشن سیکریٹری عبدالر زاق چشتی نے حکومتی ایما پر قومی اسمبلی سے صحافت پر قدغن اور کالے قانون پیکا ایکٹ میں ترمیم کیے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت جو کہ خود کو جمہوری حکومت ہونے کی دعویدار ہے لیکن جس طرح پیکا ایکٹ ترمیمی بل پاس کرواکر غیر جمہوری اقدام کیا ہے اسے ملک بھر کے صحافی کسی طور پر بھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بعد صحافیوں اور صحافتی اداروں کو عملی طورپر پابند سلاسل کیا جانا ہے ، اس ترمیم کیخلاف تمام صحافتی تنظیمیں اور عامل صحافی عرصے سے احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت نے صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں لیے بغیر اس کا ترمیمی بل پاس کرایا ، جس سے حکومت کی بدنیتی اور
صحافت دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ پی ایف یو جے (ورکرز)ہر سطح اور ہر فورم پر اس کی بھرپور مخالفت اور مزاحمت کرے گی اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا ترمیمی بل پاس کرانا صحافت اور صحافیوں کا گلاگھونٹنے کے مترادف ہے ، جب یہ سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں تو اس طرح کے اقدامات پر وہ خود احتجاج کررہی ہوتی ہے لیکن اقتدار میں آتے ہی پیکا ایکٹ جیسے متنازعہ اور صحافت دشمن اقدامات کرکے صحافیوں کو جکڑنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ان جیسے قوانین کیخلاف پہلے بھی احتجاج کیا تھا اور اب بھی ملک بھر میں بھرپور احتجاج کریں گے۔ حکومت فوری طورپر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور صحافت کی آزادی کو ہر قیمت پر مقدم رکھے ورنہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف ملک بھر میں ان حکمرانوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ بین الاقوامی طورپر بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہاکہ پیکا ایکٹ
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔
امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔