وادی نیلم میں پراسرار بیماری، نوجوان بچے، بچیاں شکار
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
راجہ ابریز
آزاد کشمیر کے سیاحتی مقام وادی نیلم کے علاقے کنڈلشاہی سے ملحقہ فراشیاں اور ریت محلے میں گزشتہ کئی سالوں سے نوجوان بچے اور بچیاں ایک پر اسرار بیماری کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کئی نوجوان، بچے اور بچیاں اس بیماری کا شکار ہوکر چلنے پھرنے سے قاصر ہیں، دوسری طرف محکمہ صحت عامہ آزاد کشمیر اس پراسرار بیماری کی تشخیص کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔
پر اسرار بیماری 14 سے 15 سال کی عمر میں نمودار ہوتی ہے، جس کی علامات میں جھٹکے لگنا اور بے ہوش ہوجانا شامل ہے، انسان چلنے پھرنے سے قاصر ہو کر بیڈ تک پہنچ جاتا ہے اور کچھ سال بیمار رہنے کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے، اس بیماری میں مبتلاء ہو کر کئی بچے اور بچیاں جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ کچھ بیماری کی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وادی نیلم میں بہادر ننھی بچی کا ریسکیو آپریشن سوشل میڈیا پر وائرل
متاثرین کے مطابق یہ پراسرار بیماری ایک مخصوص علاقے میں ہے، جو تقریباً ایک کلو میٹر کی لمبی پٹی پر مشتمل ہے،اس علاقے میں بچے اور بچیوں کی اموات کے باوجود محکمہ صحت آزاد کشمیر کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہ کیے جاسکے ہیں، اب تک 2 درجن سے زائد نوجوان بچے بچیاں اس بیماری کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ 10 سے زائد اس وقت بھی اس موذی بیماری کا شکار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آزاد کشمیر اموات پاکستان پراسرار بیماری ریت محلہ فراشیاں محکمہ صحت وادی نیلم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اموات پاکستان ریت محلہ فراشیاں وادی نیلم بیماری کا شکار وادی نیلم بچے اور
پڑھیں:
31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا
غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے دو ساتھیوں کے ہمراہ جیٹ اسکی کے ذریعے خطرناک سمندری سفر کرتے ہوئے یورپ پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ سفر ایک سال سے زائد عرصے پر محیط تھا، جس میں ہزاروں ڈالر، کئی ناکام کوششیں اور غیر معمولی ہمت شامل تھی۔ ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں نے لیمپیڈوسا (اٹلی) کے قریب سمندر میں ایندھن ختم ہونے کے بعد مدد کے لیے کال کی، جس کے بعد ریسکیو آپریشن کے ذریعے انہیں بحفاظت ساحل تک پہنچایا گیا۔
ابو دخہ نے بتایا کہ انہوں نے جیٹ اسکی لیبیا سے خریدی اور جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس کے ساتھ سفر کیا۔ ان کے ساتھ دو اور فلسطینی ضیا اور باسم بھی شامل تھے۔ تینوں نے تقریباً 12 گھنٹے مسلسل سمندر میں سفر کیا اور تیونس کی گشت کرتی کشتیوں سے بچتے رہے۔
لیمپیڈوسا پہنچنے کے بعد انہیں اٹلی سے برسلز اور پھر جرمنی پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے پناہ کی درخواست دی ہے۔ ابو دخہ نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو بھی جرمنی بلا سکیں گے۔ ان کا خاندان اب بھی خان یونس کی خیمہ بستی میں مقیم ہے۔