ڈچ میوزیم سے ہزاروں سال قدیم سونے کے چار نوادرات چوری
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
ڈچ میوزیم سے سونے کے چار قدیم نوادرات راتوں رات چوری کر لیے گئے، ملزمان نے واردات کے دوران دھماکے کیلئے بارودی مواد بھی استعمال کیا۔
چوروں نے نیدرلینڈز کے شہر ایسن کے ڈرینٹس میوزیم میں چوری کے لیے دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا۔ یہ میوزیم سونے اور چاندی سے بنے انمول رومانیہ کے زیورات کی نمائش کی میزبانی کر رہا تھا۔
چور تین ڈیشین سرپل بریسلیٹس اور نمائش کا مرکزی ٹکڑا، کوٹوفینسٹی کا حیرت انگیز طور پر سجا ہوا ہیلمٹ، لے کر فرار ہو گئے۔ یہ ہیلمٹ تقریباً 2500 سال پہلے تیار کیا گیا تھا۔
رومانیہ کی وزارت ثقافت نے اعلان کیا ہے کہ چوری شدہ اشیاء کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ نوادرات بخارسٹ سے ڈچ میوزیم کو عارضی طور پر دیے گئے تھے۔
ڈرینٹس میوزیم کے ڈائریکٹر ہیری ٹوپن نے کہا کہ عملہ چوری کے اس واقعے سے "شدید صدمے" میں ہے۔ ان کے مطابق یہ واقعہ میوزیم کی 170 سالہ تاریخ میں سب سے بڑا نقصان ہے۔
مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی صبح کے اوائل میں دھماکے کی اطلاع کے بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی۔ افسران نے فرانزک تحقیقات کیں اور دن بھر سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا۔
پولیس ایک جلتی ہوئی گاڑی کی بھی تفتیش کر رہی ہے جو قریبی سڑک سے ملی۔ شبہ ہے کہ اس گاڑی کا تعلق چوری سے ہو سکتا ہے۔
ڈچ پولیس کے بیان کے مطابق، "ایک ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ مشتبہ افراد آگ کے قریب کسی دوسری گاڑی میں فرار ہو گئے۔"
تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، لیکن حکام کا خیال ہے کہ اس واردات میں متعدد افراد ملوث تھے۔ تفتیش میں مدد کے لیے عالمی پولیسنگ ایجنسی انٹرپول کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
میوزیم کے بیان کے مطابق، چار "آثار قدیمہ کے شاہکار" چوری ہوئے ہیں، جن میں کوٹوفینسٹی ہیلمٹ، جو تقریباً 450 قبل مسیح کا ہے، اور تین قدیم ڈیشین شاہی کنگن شامل ہیں۔
چوری شدہ اشیاء رومانیہ کے لیے بہت بڑی ثقافتی اہمیت رکھتی ہیں۔ کوٹوفینسٹی کے ہیلمٹ کو قومی خزانہ تصور کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اسی دور کے 24 کنگن خزانے کے شکاریوں نے کھود کر بیرون ملک فروخت کیے تھے۔
رومانیہ کی ریاست نے انہیں آسٹریا، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں جمع کرنے والوں سے واپس حاصل کرنے کے لیے برسوں تک جدوجہد کی تھی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔
خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش
بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت
پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی
سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔
یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔
قدیم نظریہ، جدید عکس19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔
سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔
انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک
زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک
کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن
کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک
یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔
شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔
مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔
لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟
پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔
بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز