Islam Times:
2025-07-25@12:38:47 GMT

غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات

اسلام ٹائمز: علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ تحریر: سید رضی عمادی
 
گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں جن کا تین مختلف سطح یعنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جا سکتا ہے:
1)۔ اندرونی سطح پر ظاہر ہونے والے اثرات
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ شدید سیاسی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کئی وزیر استعفی دے چکے ہیں جن میں قومی سلامتی کا وزیر اتمار بن گویر بھی شامل ہے۔ بن گویر نے جنگ بندی کو حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست قرار دی ہے۔ بن گویر کے ساتھ ساتھ اس کی پارٹی کے دو دیگر وزیر، اسحاق واسرلاوف اور عامیحای الیاہو نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ بن گویر نے صیہونی وزیر خزانہ بیزلل اسموٹریچ کو بھی استعفی دینے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری طرف صیہونی فوج کے سربراہ جنرل ہرتزے ہالیوے نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اسی طرح بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شاباک کا سربراہ بھی عنقریب اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے گا۔
 
ایسے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ اور اس کے بعد جنگ بندی کا غاصب صیہونی رژیم پر ایک اہم اثر حکمران طبقے میں پڑنے والی گہری دراڑ ہے۔ یاد رہے بنجمن نیتن یاہو نے 2022ء میں دائیں بازو کے انتہاپسند سیاسی رہنماوں بن گویر اور بیزلل اسموٹریچ سے مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی تھی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس کے دو بنیادی اتحادی غزہ میں جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں اسموٹریچ اور بن گویر کا ووٹ بینک بھی کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیزلل اسموٹریچ کی سربراہی میں مذہبی صیہونزم پارٹی 3.

25 فیصد عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی جس کے باعث آئندہ الیکشن میں اسے کینسٹ میں کوئی سیٹ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں نیتن یاہو کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن منعقد کروائے جائیں گے۔
 
2)۔ علاقائی سطح پر اثرات
علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
 
دوسری طرف غزہ جنگ اور اس میں صیہونی رژیم کی بربریت اور انتہائی درجہ وحشیانہ پن نے بھی عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے عمل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے ابراہیم معاہدے کے تحت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، اسلامی دنیا میں اسرائیل کی ایک اچھی تصویر پیش کرنے کے درپے تھے۔ لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے 2020ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف تھے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں امن اور استحکام کا باعث بنے گی اور اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے، لیکن غزہ جنگ کے دوران جو کچھ بھی ہوا اس نے دنیا والوں کے سامنے اسرائیل کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا۔
 
3۔ عالمی سطح پر سیاسی اثرات
غزہ جنگ سے پہلے، غاصب صیہونی رژیم دنیا پر مسلط مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر اسرائیل کا مثبت اور اخلاقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لیکن غزہ جنگ میں اسرائیل نے ایسے جنگی جرائم انجام دیے ہیں جو بہت واضح تھے اور حتی عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے صیہونی حکمرانوں پر فرد جرم عائد کی اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ یاد رہے کہ مختلف عالمی قانونی دستاویزات جیسے بین الاقوامی قانونی معاہدوں، کنونشنز اور منشورات میں ایسے اقدامات یقینی طور پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی مخالفت قرار پا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑے بڑے مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے منعقد ہوتے رہے جن میں صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات می مذمت کی گئی اور فلسطینی قوم کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
 
عالمی سطح پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر اسرائیل کے خارجہ تعلقات پر پڑا ہے۔ غزہ جنگ سے پہلے تمام یورپی ممالک غیر مشروط طور پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے تھے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس تک غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام پانے کے بعد یورپی ممالک کی رائے عامہ میں اسرائیل کی حیثیت اس قدر خراب ہوئی ہے کہ اب حتی یورپی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے سے کتراتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 470 دنوں میں مختلف یورپی ممالک میں 30 ہزار سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئی ہیں۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صیہونی حکمرانون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے بعد اب بہت سے مغربی ممالک بھی صیہونی حکمرانوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے گوشہ نشین ہو جانے کی یہ واضح دلیل ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات اور بحرین غاصب صیہونی رژیم پر تعلقات معمول پر بنجمن نیتن یاہو بین الاقوامی عالمی سطح پر میں اسرائیل اسرائیل کی تعلقات کی عرب ممالک اہم ترین یاہو نے بن گویر اور اس دیا ہے کے بعد نے بھی

پڑھیں:

اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد

اپنے ایک بیان میں فرہاد شامی کا کہنا تھا کہ کُرد فوجی، جولانی کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے آئین بنے جس میں کُردوں کے حقوق دئیے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ سیرین ڈیموکریٹک فورس کے نام سے مشہور، کُرد ملیشیاء کے ترجمان "فرہاد شامی" نے جولانی فورسز کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کُرد ملیشیاء کے لیے اپنے ہتھیار ڈالنا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہتھیار جولانی رژیم کو نہیں دیں گے۔ کُرد فوجی، جولانی کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے آئین بنے جس میں کُردوں کے حقوق دئیے جائیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر کوئی ہمارے خلاف آئے گا تو ہم ضرور لڑیں گے۔ واضح رہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورس زیادہ تر شام کے صوبہ دیر الزور، الحسکہ اور حلب میں موجود ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب تک بشار الاسد شام پر برسرِ اقتدار تھے اس وقت کُرد ملیشیاء صرف امریکی خواہش کے مطابق شام سے علیحدگی اور تقسیم کی تحریک چلا رہے تھے، لیکن بشار الاسد کے زوال کے بعد کُرد، شام کی تقسیم کی بجائے حکومت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں، امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں کُرد وفد اور شامی باغیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ جو ناکام ہو گئے۔

کُرد ملیشیاء سے تعلق رکھنے والی شمال و مشرق شام کی خودمختار انتظامیہ نے گذشتہ اتوار کو ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دمشق پر قابض جولانی رژیم کے ساتھ مذاکرات میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 10 مارچ 2025ء  کو شامی باغیوں کی حکومت کے سربراہ "ابو محمد الجولانی" اور سیرین ڈیموکریٹک فورس (قسد) کے کمانڈر "مظلوم عبدی" نے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ جس کا مقصد کُردوں کے زیرِ کنٹرول شمال مشرقی علاقوں کے فوجی و غیر فوجی اداروں کو مرکزی حکومت کے ڈھانچے میں ضم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں جامع جنگ بندی، سرحدی چوکیوں، ہوائی اڈوں اور تیل و گیس کے ذخائر پر دوبارہ حکومت کا کنٹرول، نیز کُردوں کے ثقافتی و سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا شامل تھا۔ لیکن حال ہی میں ابو محمد الجولانی نے کُردوں کو دھمکی دی اور اپنے فوجیوں کو منبج (حلب) کے قریب تشرین ڈیم کے علاقے میں بھیج دیا تاکہ انہیں کچل دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا متنازع اقدام: پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟
  • سعودی نیول چیف کی جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز آمد، دوطرفہ دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • اسرائیل کے مغربی کنارے پر خودساختہ خودمختاری کے اعلان کی عرب واسلامی ممالک کی شدید مذمت
  • پاکستانیوں کے لیے ایک اور ملک میں ویزا فری انٹری کی سہولت  
  • ہم نے ایران کیخلاف اسٹریٹجک گفتگو شروع کر رکھی ہے، غاصب صیہونی وزیر خارجہ کا دورہ کی اف
  • بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
  • شام کی دہلیز سے عرب ممالک کو تقسیم کرنے کا خطرناک اسرائیلی منصوبہ
  • اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد
  • ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، صیہونی اپوزیشن لیڈر