سوچنے کی ضرورت ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے کس طرح کا ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپورنے کہا ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک اس صورتحال سے دو چار ہے، آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کس طرح کا ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی میزبانی میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کا مشاورتی اجلاس ہوا ہے۔
اس اجلاس میں پروفیسر ابراہیم، لیاقت بلوچ، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، قاری محمد یعقوب شیخ، سید ناصر عباس شیرازی، پیر سید ہارون گیلانی، علامہ عارف حسین واحدی، محمد علی درانی، بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، بیرسٹر محمد علی سیف، علامہ ابتسام الہی ظہیر، اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنما شامل ہوئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ اجلاس بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر بلایا گیا ہے جس کا مقصد ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیات، صوبائیت کے خلاف اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے قومی سطح پر ایک جامع پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں مشاورت کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:افغانستان کا پاکستان کے خلاف ہونا ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیات، صوبائیت اور لاقانونیت عروج پر ہے مگر اس اجلاس میں مخلتف جماعتوں اور مکاتب کے زعما کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمیں قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک اس صورتحال سے دو چار ہے، آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کس طرح کا ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ملک چھوڑنا ہے تو ہمیں دہشتگردی، فرقہ واریت، لسانیات، لاقانونیت اور نسلی تعصب کے خلاف ایک جامع پالیسی تشکیل دے کر اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس سلسلے میں کافی کوششیں تو ہوئیں لیکن نتائج سامنے نہیں آئے۔ دہشتگردی کا خاتمہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے لیے عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:ہماری پولیس سپرپاور کو شکست دینے والے لوگوں سے مقابلہ کررہی ہے، علی امین گنڈاپور
انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے علما کرام سب سے زیادہ کلیدی اہمیت کی حامل ہے، ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کے لیے تمام جماعتوں کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر متحد ہونا ہوگا۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی تو لوگوں کو ان کا حق ملے گا، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی، جب تک ہم خود مختار نہیں ہوں گے تب تک اپنے اسلامی اقدار اور قومی نظریے پر عمل نہیں کرسکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ali amin gandapur KPK peace اجلاس امن خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اجلاس خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور علی امین گنڈاپور آنے والی نسلوں کی ضرورت ہے فرقہ واریت قانون کی ملک میں نے کہا کے لیے
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔