پی ٹی آئی کے 19کارکنوں کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے24 نومبر ڈی چوک احتجاج کیس میں گرفتار19 کارکنوں کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے19 ورکرز کی ضمانت کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے انہیں50,50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے وکلا انصر کیانی، سردار مصروف ایڈووکیٹ، آمنہ علی اور دیگر نے عدالت میں پیش ہو کر موقف پیش کیا۔ یہ ضمانت اس کیس کے سلسلے میں دی گئی ہے، جس میں پی ٹی آئی کارکنوں کو 24 نومبر کے ڈی چوک احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی
پڑھیں:
ای چالان کیخلاف متفقہ قرارداد کے بعد کے ایم سی کا یوٹرن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-5
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک )کراچی سٹی کونسل میں ای چالان کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے یوٹرن لے لیا۔قرارداد کی منظوری کے حوالے سے ایم سی کے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ اجلاس میں قرارداد سے متعلق غلط فہمی ہوئی، قرار داد پر مناسب بحث یا غور و خوض نہیں کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ انتظامی غلطی سے دستاویز پر دستخط ہوگئے اور اسے منظور شدہ قراردیاگیا، یہ قرارداد کونسل کے قواعد کے مطابق مطلوبہ کارروائی سے نہیں گزری تھی۔کے ایم سی کے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ واضح کرنا چاہتے ہیں ٹریفک جرمانوں سے متعلق قرارداد تاحال منظور نہیں ہوئی ہے، معاملہ آئندہ کونسل اجلاس میں باضابطہ طور پردوبارہ پیش کیاجائے گا اور مقررہ ضوابط اور کارروائی کے مطابق زیرِبحث لا کر قرار داد پر فیصلہ کیا جائے گا۔دوسری جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی میں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 31اکتوبرکو کونسل اجلاس میں اپوزیشن لیڈر نے قرارداد پیش کی جس پر جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی رہنماؤں نے گفتگو کی۔بیان میں کہا گیا کہ قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری پر سندھ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس طرح سٹی کونسل کی کوئی قرارداد واپس نہیں لی جاسکتی، غلطی سے دستخط کی اصطلاح پہلی مرتبہ سنی ہے، مرتضٰی وہاب کو سندھ حکومت کے لیے نہیں بلکہ کراچی کے لیے کام کرنا ہوگا۔