کیلی فورنیا میں بارش آگ پر قابو پانے میں مددگار، زہریلی راکھ پھیلنے کا خطر ہ بڑھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
جنوبی کیلی فورنیا کے کچھ علاقوں میں اتوار کو اور رات بھر کی بارشوں سے لاس اینجلس کے جنگلاتی آگ سے جھلسے ہوئے علاقوں میں زہریلی راکھ کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مزید تھوڑی بارش سے بھی کیچڑ اور تودے گرنے کا شدید خطرہ ہوسکتا ہے۔
کیلی فورنیا کے شہر اکسنارڈ میں قومی محکمہ موسمیات کے ایک ماہر جو سیررڈ نے کہا ہے کہ ، لاس اینجلس میں پیلیسیڈز ، الٹاڈینا اور کیسٹک جھیل کے ارد گرد لگنے والی آگ سے جھلسے ہوئے نشیبی علاقوں کے لئے سیلاب کے خطرے کی وارننگ پیر کے روز سے لاگو ہو گئی ہے ۔
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں چند منٹ کے لیے تھوڑی مقدار کی مزید بارش سے بھی کیچڑ اور تودوں کے گرنے کا شدید خطرہ ہوسکتا ہے ۔
سمندر اور ماحولیات سے متعلق قومی انتظامیہ نے رپورٹ دی ہے کہ لاس اینجلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے نے اتوار سے پیر کے روز تین بجے صبح تک ختم ہونے والے 24 گھنٹوں میں ایک انچ سے کم بارش کی اطلاع دی ۔ اس کے ارد گرد کے علاقوں سے اس سے بھی کم بارش کی اطلاع ملی۔
سانتا مونیکا میلبیو اسکول ڈسٹرکٹ کے حکام نے آن لائن اپنی پوسٹ میں کہا کہ ، پیر کے روز سڑکو ں پر خطرناک حالات اور اسکولوں تک پہنچنے میں مشکلات کے باعث میلیبوکے چار اسکول بند رہے ۔
لاس اینجلس کاؤنٹی میں فائر ڈپارٹمنٹ کے عملے نے گزشتہ ہفتے کا بیشتر وقت پیلیسییڈز اور ایٹن کی آگ کے تباہ شدہ علاقوں کی جھاڑیاں ہٹانے ، ڈھلانوں سے ملبے کو گرنے سے محفوظ رکھنے اور سڑکوں کو مستحکم کرنے میں صرف کیا جس سے تمام مضافاتی علاقوں میں ملبے اور راکھ میں کمی ہوئی۔
پیلیسیڈز کے علاقے میں لگنے والی آگ ، جو سب سے بڑی تھی اور جس سے ہزاروں گھر تباہ اورکم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے پیر کو 94 فیصد تک قابو میں آ گئی۔ ایٹن کی آگ پر ، جو الٹاڈینا کے قریب لگی اور جس میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوئے، 98 فیصد پر قابو پا لیا گیا۔
عہدے داروں نے انتباہ کیا ہے کہ آگ سے جلے ہوئے علاقوں کی راکھ میں جھلسی ہوئی کاروں ، الیکٹرانکس ، بیٹریوں، عمارتی مواد ، پینٹ ، فرنیچر اور دوسرے گھریلو زہریلے مادے اور کیڑے مار ادویات کے علاوہ پلاسٹک اور سیسہ شامل ہے ۔ اس لیے رہائشیوں پر زور دیا ہے کہ وہ صفائی کا کام کرتے ہوئے حفاظتی لباس پہنیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل لاس اینجلس
پڑھیں:
پنجاب میں فتنۃ الخوارج ٹی ٹی پی کی موجودگی اور کارراوئیوں میں اضافہ، رپورٹ
انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض مقامات پر وہ شناختی کارڈ چیک کرنے اور معمولی نوعیت کے مقامی تنازعات میں مداخلت جیسی سرگرمیوں میں بھی مصروف پائے گئے ہیں گویا وہ خود ساختہ سیکیورٹی فورس بنے بیٹھے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آئی آن فرنٹ لائنز نامی ادارے کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فتنۃ الخوارج کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جنوبی اور مغربی پنجاب کے اضلاع میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ نمایاں طور پر بڑھا لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم تنظیم نے حالیہ چند برسوں میں اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کرتے ہوئے قبائلی اور سرحدی علاقوں کی بجائے اب ملک کے اندرونی حصوں، خصوصاً پنجاب میں اپنی تنظیمی سرگرمیوں کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اس وقت ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور میانوالی کے گردونواح میں فعال ہیں۔ مقامی ذرائع اور سیکیورٹی رپورٹس کے مطابق، ان علاقوں میں سورج غروب ہوتے ہی ریاستی عمل داری تقریباً غیر مؤثر ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گرد بلاخوف و خطر نقل و حرکت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پس پردہ کارروائیوں تک محدود نہیں رہیں۔
انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض مقامات پر وہ شناختی کارڈ چیک کرنے اور معمولی نوعیت کے مقامی تنازعات میں مداخلت جیسی سرگرمیوں میں بھی مصروف پائے گئے ہیں گویا وہ خود ساختہ سیکیورٹی فورس بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی و مضافاتی علاقوں میں طالبان دہشت گرد 15 سے 20 کلومیٹر کے علاقے میں متحرک ہیں، جبکہ میانوالی اور دیگر دیہی علاقوں میں بھی ان کی موجودگی کے واضح شواہد ملے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے ہیں، اور ان کی نقل و حرکت مختلف علاقوں میں باقاعدہ نظم و ضبط کے ساتھ جاری ہے۔ آئی آن فرنٹ لائنز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب میں ٹی ٹی پی کا منظم نیٹ ورک سرگرم ہے، جس میں 300 سے 500 کے درمیان دہشت گرد شامل ہیں۔ یہ افراد چھوٹے چھوٹے گروپوں میں منقسم ہو کر مختلف علاقوں میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران باجھا اور وجن کے علاقوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ تنظیم نے نہ صرف اپنی موجودگی کو فعال بنایا ہے بلکہ سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مقامی آبادی کی ایک قابلِ ذکر تعداد طالبان جنگجوؤں کی موجودگی کو جرائم میں کمی کا سبب قرار دے رہی ہے۔
بعض شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ ان جنگجوؤں کی آمد کے بعد چوری، ڈکیتی اور قبائلی جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ ان کے بقول طالبان دہشت گرد مقامی افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے اور بعض مقامات پر علاقے کا نظم و نسق سنبھالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جو کہ پولیس کی موجودگی کے دوران بدامنی اور بڑھتے جرائم کے تناظر میں ایک متضاد منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔