چین کی مصنوعی ذہانت کی ایپ نے امریکہ اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
مارک اینڈریسن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی اور دنیا کے معروف ٹیک سرمایہ کاروں میں سے ایک، نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ڈیپ سیک کو "سب سے زیادہ حیرت انگیز اور متاثر کن پیش رفتوں میں سے ایک" قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ حال ہی میں لانچ ہونے والی چین کی مصنوعی ذہانت کی ایپ (DeepSeek) نے امریکہ اور یورپ کو ہلا کر دکھ دیا ہے۔ امریکی سٹاک مارکیٹ میں پیر کو حیران کن کمی دیکھنے کو ملی، چب بنانے والی کمپنی نویڈا (Nvidia) کی مارکیٹ ویلیو میں تقریباً 600 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ، میٹا کی ویلیو میں تیزی سے کمی ہوئی۔ Nvidia کے حریف مارویل، براڈ کام، مائکرون اور TSMC سب بھی تیزی سے گر گئے۔ اوریکل (ORCL)، Vertiv، Constellation، NuScale اور دیگر توانائی اور ڈیٹا سینٹر کمپنوں کی سٹاک مالیت بھی گر گئی۔ امریکی میڈیا نے اس پیشرفت کو امریکہ کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے ناقابل تسخیر ہونے کی چمک کو حقیقی خطرہ قرار دیا ہے۔ چینی کی مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک، ایک سال پرانے اسٹارٹ اپ نے گزشتہ ہفتے ایک شاندار صلاحیت کا انکشاف کیا تھا کہ اس نے R1 نامی ChatGPT نما AI ماڈل پیش کیا، جس میں وہ تمام صلاحیتیں ہیں جو OpenAI، Google یا Meta کے مقبول اے آئی ماڈلز میں موجود ہیں۔
کمپنی نے کہا کہ اس نے اپنے بیس ماڈل کے لیے کمپیوٹنگ پاور پر صرف 5.
سی این این نے اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک نسبتاً نامعلوم AI سٹارٹ اپ کی شاندار کامیابی اس وقت اور بھی چونکا دینے والی ہو جاتی ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ امریکہ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کئی سالوں سے چین کو ہائی پاور AI چپس کی فراہمی کو محدود کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چند گھنٹے قبل امریکی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو تنبیہ کی اور کہا کہ چینی ایپ کے بعد ہماری انڈسٹری کو جاگ جانا چاہیے۔ انھوں نے چینی ایپ کو مثبت پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کے پاس سب سے عظیم سائنس دان ہیں اور یہ بات مجھے چینی قیادت بھی بتا چکی ہے۔ واضح رہے کہ ڈیپ سیک، جو اے آئی چیٹ باٹ ہے، کسی اور حریف ایپ کے مقابلے میں بہت سستی ہے اور گزشتہ ہفتے لانچ ہونے کے بعد سے امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شمار ہونے لگی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کی میں سے ایک سے زیادہ قرار دیا ڈیپ سیک کے بعد کہا کہ اے آئی
پڑھیں:
تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔