چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کراچی کے تاجروں سے بھتہ وصولی کا خاتمہ ہوگیا.تو یہ کریڈٹ سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا ہے. آج آپ سے بھتہ لیا جاتا ہے نہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کراچی میں تاجروں کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ زمینوں پر قبضے کی شکایات بار بار آرہی ہیں.

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، کہیں چغلی لگانے کی ضرورت نہیں. مجھ سے کہہ دیں، کوشش کریں گے کہ تاجروں کے مسائل حل کریں. ہم مسائل کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ کئی مسائل حل طلب ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر آج آپ کی فیکٹریاں اور صنعتیں چل رہی ہیں، اور بھتہ نہیں لیا جاتا، مزدوروں کو ہڑتال کے لیے زبردستی نہیں لے جایا جاتا اور سب امن و سکون سے کارروبار کر رہے ہیں، تو اس میں چھوٹا سا کردار پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی بھی کسی تاجر سے چندہ مانگا ہے نہ بھتہ مانگا ہے، میرا سیدھا سا مدعا ہے، میرے بارے میں کوئی شکایت ہے تو سیدھی طرح بتائیں، میں کیوں چاہوں گا کہ میرے نام پر یا ہماری حکومت کے نام پر لوگ آپ کو تنگ کریں، جو بھی مسئلہ ہو، آپ کھل کر بتائیں، نام لیں کہ فلاں افسر یا شخص آیا اور اس نے یہ مطالبہ کیا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندے ہمارے منشور کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں. ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کو مضبوط بنائیں اور اس شراکت داری کے ذریعے بڑے منصوبے مکمل کریں، ہم نے ماضی میں صحت، تھرکول اور تعمیراتی شعبے کے منصوبے پی پی پی موڈ پر ہی مکمل کیے ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہم فخر کرتے ہیں کہ سندھ واحد صوبہ ہے. جس میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ چل رہی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے سراہا گیا ہے. سندھ حکومت کے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے منصوبے منافع میں ہیں.یہ تمام منصوبے اپنی لاگت مکمل کرنے کے بعد اب منافع بنا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں نجی شعبے کے ساتھ مل کر سندھ کے عوام کی خدمت کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نجی شعبے کی مدد سے سندھ کی ڈسکوز بنائیں، ہم نے اپنا بندوبست خود کرنا ہے، وزیر اور وزیراعظم کس ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دی؟ سندھ اور وفاق میں بھی مسائل ہیں، یہ کیسی حکومت ہے جو آئینی حق نہیں دیتی، ہمیں گیس نہیں ملتا، یہ ہمارا آئینی حق ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں گیس دو۔انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے وفاق حق نہیں دیتا تو عدالتوں میں جانے کا آپشن موجود ہے، پانی کا ایشو بھی بہت اہم ہے. یہ مسئلہ پوری دنیا کی ترجیح بن چکا ہے، صرف پاکستان نہیں بلکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خشک سالی اور قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ کراچی کی آبادی ہر ہفتہ 5 ہزار بڑھ جاتی ہے، اس شہر کو پانی فراہم کرنا ایک امتحان ہے، آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جیسے آپ کو گیس کا حق نہیں دیا جارہا، اسی طرح طویل عرصے سے آپ کو پانی بھی نہیں دیا جاتا، جب سے آبی معاہدہ ہوا ہے، تب سے آج تک سندھ کو پانی کا مکمل شیئر نہیں ملا، صرف سیلاب کے دوران ہمیں پانی ملتا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 91 کے آبی معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ اضافی پانی دیا جائے گا .تاکہ اس شہر کی ضروریات پوری کی جاسکیں. لیکن آج تک وہ اضافی پانی تو دور کی بات ہے، ہمیں ہمارا شیئر بھی مکمل نہیں ملا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے مزید 6 نہروں کو نکالنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے کراچی جو ٹیل پر واقع ہے، اسے پانی ملے گا ہی نہیں، ہم تو چاہیں گے کہ اس منصوبے سے فائدہ ہوگا تو ضرور بنائیں، لیکن ایسا کچھ نہیں، ہم جب ان کینالز کی مخالفت کرتے ہیں ہم کراچی کے حق کی جنگ لڑتے ہیں، یہاں کے تاجروں کے حق کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو تاجروں، کراچی کے عوام اور ہم سب کا مطالبہ ہونا چاہیے کہ 91 کے آبی معاہدے پر عمل کرو، جب یہ ہوجائے گا تو ہم ہر ضلع اور شہر کے ہر علاقے میں پانی پہنچانے کے قابل ہوں گے، پھر آپ مجھ سے سوال کیجئے گا، لیکن جب تک یہ نہیں ہو رہا، ہم چاہتے ہیں کہ پی پی پی موڈ پر ڈی سلینیشن پلانٹس کے ذریعے کھارے پانی کو میٹھا بناکر اس مسئلے کو حل کریں۔بلاول نے کہا کہ پانی کی کمی جاری ہے اور اس صورت حال میں ہمیں اسمارٹ ایری گیشن کی جانب جانا ہوگا، اس حوالے سے بھی ہم پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے خواہاں ہیں. کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے بھی ہم چاہتے ہیں کہ نجی شعبے کی معاونت لیں. جیسے وفاق کا منصوبہ ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں زرعی فصلیں اگانے جا رہے ہیں جہاں پانی موجود نہیں. لیکن ہم سندھ کے ان علاقوں میں کارپوریٹ فارمنگ متعارف کرائیں گے جہاں پانی پہنچ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاشت کاروں اور بزنس کمیونٹی کے اشتراک سے ہم یہ منصوبہ متعارف کروانا چاہتے ہیں. تاکہ صوبے میں ماڈرن تکنیکس کے استعمال سے فصلوں کی پیداوار بڑھائی جائے. عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم پہلے مرحلے میں سندھ کی کوشش ہوگی کہ اپنے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں، یہ بہت بڑا انفرا اسٹرکچر تشکیل دینے کے بعد ممکن ہوگا کہ ہم زرعی شعبے کو اور اپنی معیشت کو بہتر بنائیں، چھوٹے کسانوں اور سرمایہ کاروں کے اشتراک کو حکومت بھرپور سپورٹ کرے گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں فلاحی ریاست کے حق میں ہوں. اس کے لیے ٹیکس جنریٹ کرنا ہوگا، آمدنی بڑھانی ہوگی. لیکن جس انداز میں پاکستان کا ٹیکس سسٹم چل رہا ہے. اس طرح ہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے.ہم ٹیکس کے بجائے بھتہ لگا دیتے ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ میں اسلام آباد میں ٹیکس کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں شریک رہا ہوں، لیکن ہمیں اس طرح ٹیکس متعارف کرانے ہوں گے ، جن سے کاروبار کرنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو، کیا ہماری حکومت صحت کی سہولتیں فراہم کرتی ہے، لوگوں کو جان کا تحفظ فراہم کرتی ہے؟ جب ایسا نہیں تو کس منہ سے ہم لوگوں کی آمدن کا نصف حصہ ٹیکس میں لے سکتے ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس کلیکشن مسئلہ ہے. سندھ میں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس ادا کرنے والی شخصیت کا نام آصف علی زرداری ہے، ہم کو اپنا ریونیو اور کلیکشن بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی، ہمارا یہ ریکارڈ ہے، جب سروسز پر سیلز ٹیکس سندھ کی ذمہ داری بنا تو ہم نے اسے دیگر صوبوں سے کم رکھا .لیکن کلیکشن میں بغیر کسی دھمکی اور گرفتاریوں کے لوگوں کو انگیج کرکے ریکارڈ ٹیکس جمع کرکے دکھایا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پبلک پرائیوٹ پیپلز پارٹی تاجروں کے کرتے ہیں

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف نے کی، نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کی حمایت کی درخواست کی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی تفصیلات اپنے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وفد نے آئینی ترمیم سے متعلق تجاویز پیش کیں، جن میں کئی اہم اور حساس نکات شامل ہیں۔

بلاول بھٹو کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر آصف علی زرداری اور مجھ سے ملا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون کی درخواست کی۔ مجوزہ ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق:

آئینی عدالت (Constitutional Court) کا قیام،

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی،

ججوں کے تبادلے کا اختیار،

این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ،

آرٹیکل 243 میں ترمیم،

تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا،

اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی تقرری پر جاری ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ان تجاویز پر غور کے لیے پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (CEC) کا اجلاس 6 نومبر کو طلب کیا گیا ہے، جو صدر آصف علی زرداری کے دوحہ سے واپسی پر منعقد ہوگا۔ اجلاس میں پارٹی کی حتمی پالیسی طے کی جائے گی۔

PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…

— Bilawal Bhutto Zardari (@BBhuttoZardari) November 3, 2025

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں آئینی اصلاحات اور ادارہ جاتی اختیارات کے موضوع پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے نے کہا تھا کہ اگر 27 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام پر کھل کر بات ہونی چاہیے اور انہیں آئینی تحفظ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں لازمی ہوں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی کاکس میں 80 سے زائد اراکین شامل ہیں، جن میں سے 35 اپوزیشن کے ہیں، جبکہ احمد اقبال چوہدری، رانا محمد ارشد اور علی حیدر گیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ قرارداد میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 140-اے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے وقت کا تعین کرے، اور مقامی حکومتوں کو مالی و انتظامی اختیارات دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک 15 سو نمائندوں سے نہیں چل سکتا، اگر عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل نہ ہوئے تو جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔

اسپیکر نے کہا کہ ملکی تاریخ کے 77 برس میں قریباً 50 سال مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں رہیں، جس سے عوامی مسائل حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر صفائی، قبرستان اور پانی جیسے مسائل حل نہ ہوں تو عوام کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتا ہے۔

ملک محمد احمد خان نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی بھی آرٹیکل 140-اے کی اہمیت کو سمجھیں گی۔

مقامی حکومتوں سے متعلق متفقہ منظور کی گئی قرارداد کے اہم نکات؟

پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں کو آئینی قرار دینے کے لیے قرارداد وفاق کو ارسال کر دی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں نیا باب شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا

پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوئی قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکرہٹری سینیٹ کو ارسال کی گئی، قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے متفقہ طور پر پیش کی تھی، صوبائی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 140 A – میں ترمیم کی تجویز دے دی۔

قرار داد کے متن کے مطابق آئین میں ایک نیا باب مقامی حکومتوں کے نام سے شامل کیا جائے، مقامی حکومتوں کی مدت اور ذمہ داریوں کی آئینی وضاحت کی سفارش کی گئی، مقامی حکومتوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط تجویز کی گئی۔

متن کے مطابق منتخب نمائندوں کو 21 دن میں اجلاس منعقد کرنے کا پابند کیا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف دو سال چل سکے، با اختیار، با وسائل بلدیاتی نظام کا قیام ناگزیر ہے، بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری ضروری ہے۔

قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140A-  میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی، سپریم کورٹ نے مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دیا، پاکستان میں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں ہے، بلدیاتی قوانین میں بار بار تبدیلیاں اداروں کی کمزوری کا سبب ہیں۔

متن میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں، چارٹر سی پی اے نے بھی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022 میں آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی سفارش کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرانا مشکل ہوگا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یہ براہِ راست سیاسی رابطہ کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کی پی پی سے 27 ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست، بلاول نے تفصیلات جاری کردیں
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • وزیرِاعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • وزیراعظم کی زیرصدارت لیگی وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے تعاون مانگا، بلاول بھٹو کا انکشاف
  • وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
  • وزیراعظم نے 27ویں آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست کی، بلاول بھٹو زرداری کا انکشاف
  • وزیراعظم نے27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی ہے، بلاول بھٹو
  • چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول  بھٹو نے لیگی وفد سے ملاقات کی اندرونی کہانی  بتا دی
  • پی ٹی آئی کی وجہ سے آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں جیت کو شکست میں بدلا گیا، اب حکومت بنائینگے: بلاول