کرائے پر دستیاب امریکی ارکان
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کیا آپ کے لئے حیرت انگیز نہیں کہ پاکستان کو کسی قطار،شمار میں نہ لانے والے امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز یہاں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے قراردادیں منظور کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ذاتی سطح پر پوسٹس اور ٹوئیٹس بھی۔ انہیں اس امر میںکیا دلچسپی ہے کہ عمران خان جیل میں ہے اور اسے رہا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے مگر اتنا ہی شرمناک بھی ہے۔ پاکستانیوں بارے ایک امریکی وکیل نے جو گھٹیا کمنٹس دئیے تھے امریکی سیاستدانوں کی حالت اس سے بھی کم تر، گھٹیا اور بُری ہے کہ وہ عین آئینی اور قانونی طور پر کرائے پر دستیاب ہیں۔ پاکستانی اگر کوئی غلطی یا جُرم کرتے ہیں تو اس ملک کا آئین اور قانون اس کی حمایت نہیں کرتا، اسے سپورٹ نہیں کرتا مگر امریکی سیاستدانوں کو ڈالروں کے بدلے خرید لینا ان کے مطابق سو فیصد جائز ہے۔ امریکا کا آئین لابنگ فرمز کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیتا ہے اور میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی بڑی بڑی لابنگ فرمزہر سال لاکھوں ڈالرز کا ریونیو کما لیتی ہیں جیسے براوسٹین کا 2023 ء میں 62.
میںنے امریکہ سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر شبیر احمد خان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی سینٹرز اور کانگریس مین کو بہت سارے معاملات کا علم نہیں ہوتا مگر دنیا بھر کی تنظیمیں اور ممالک تک امریکہ میں اور امریکہ سے اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں سو ان تک رسائی کے لئے یہ طریقہ کار وہاں کے قانون اور ضابطے کے مطابق غلط نہیں ہے۔ عبداللہ حمید گل بھی ان معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ لابنگ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک ثابت شدہ مجرم کے لئے کس طرح جسٹی فائیڈ ہے کہ وہ ڈالرز دے کر امریکی ارکان خرید لے اور اپنے حق میں دباو ڈلوا لے۔ سینئر اینکر اور تجزیہ کار پی جے میر کہتے ہیں کہ جو بھی ہو، طریقہ کار یہی ہے اور اگر آپ بھی امریکہ میں اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی لابنگ کرنا ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بہت سارے اللے تللے کرتی ہیں، فضول خرچیاں کرتی ہیں اور جہاں پیسے خرچ کرنا چاہئیں وہاں نہیں کرتیں جیسے مسئلہ کشمیر۔ انہیں کون روکتا ہے کہ اس کے لئے وہ لابنگ فرمز ہائر کریں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ بھارت پر دباو بڑھائے۔ان کی بات زمینی حقائق کے عین مطابق ہے مگر کیا یہ اخلاقی تقاضے بھی پورے کرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ قیمت پر مؤقف اور حمایت کا دستیاب ہونا ہرگز کسی اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ منظرنامہ بہت سادہ ہے کہ گولڈ سمتھ فیملی کے ڈالر چلتے ہیں اور امریکی ایوان نمائندگان میں دونوں بڑی جماعتوں کے ارکان اکٹھے ہو کے انسانی حقوق کے نام پر پی ٹی آئی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لیتے ہیں حالانکہ پاکستان میں ایک آئینی حکومت اور عدالت موجود ہے جو کام کر رہی ہے مگر وہ غزہ کے معاملات پر کوئی قرارداد منظور نہیں کرتے۔ وہ کپواڑہ کے قتل عام کے اکتیس برس گزرنے کے باوجود بھارت کو اس کے فوجیوں کو سزا دینے کے لئے نہیں کہتے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل نفی پر مُودی کی سرزنش نہیں کرتے مگر کرائے پر دستیاب ہو کے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیاں سن لیتے ہیں جیسے ابھی پاکستان کے کچھ ریاست مخالف اینکرز اور ایکٹیویسٹس ایک کمرہ کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور کچھ ارکان بھی ، پاکستان کی فوج اور حکومت کے خلاف جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔ مجھے وہ امریکی یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں تو میرا سوال ہے کہ امریکی کیا بیچ رہے ہیں؟ ڈاکٹر شبیر احمد خان نے میرے سوال پر کہا کہ امریکی اس لئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نہ ٹوئیٹ کرتے ہیں اور نہ ہی قرارداد کہ وہاں جیوش لابی بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ایک دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ ایلون مسک جیسی شخصیات کے مقابلے میں امریکی کانگریس مین بہت غریب ہیں۔ وہ اپنا خرچہ اسی فنڈ ریزنگ ، ڈونیشن اور آنریریم سے نکالتے ہیں۔میں امریکی آئین میں دی گئی لابنگ کی اجازت اور امریکی ارکان پارلیمنٹ کی اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہوں تو یہ کیا غلط ہے۔ آپ کچھ بندے جمع کریں ، وہاں ایک ڈنر کا خرچہ کریں اور امریکی پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو بلا لیں۔ وہ آپ سے درخواست لے لے گا، آپ کے ساتھ فوٹو شوٹ کروا لے گا اور اپنے آپ کو آپ کے مفاد کے لئے حاضر کر دے گا۔ کیا یہ ضمیر فروخت کرنے جیسا نہیں ہے اور اگر یہی کام پاکستانی سیاستدان یا صحافی کرے تو اسے کرپٹ کہتے ہیں، لفافہ کہتے ہیں۔
کچھ لوگ گمراہ کرتے ہیں کہ عمران خان کے ذاتی تعلقات موجود ہیں کہ وہ ایک کرکٹر رہا ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے سابق سسرال کو نظرانداز کرسکتے ہیں اور اس کی سابق اہلیہ اور سالا۔ اس کی سابق بیوی پاکستان کے ان تمام یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس سے ملتی اور ان کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواتی ہے جو پاکستان کی فوج کے بھگوڑے ہیں یا پی ٹی آئی کے اینٹی سٹیٹ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ جیسے عادل راجا۔ ایسے میں کیا ہم بھارت اور اسرائیل کی طرف سے پاکستان مخالف فنڈنگ کو نظرانداز کرسکتے ہیں جس کے شواہد الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران بھی ملے اور پی ٹی آئی پر غیر قانونی فنڈنگ ثابت ہوئی۔ یہ پاکستان مخالف قوتوں کا ایک اتحاد ہے جو امریکا میں پاک فوج کے سپہ سالار کی تصویریں لگا کے ٹرک بھی چلواتا ہے اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ ساتھ صحافی بھی خریدتا ہے۔ اگر یہ کوئی نظریاتی جدوجہد بھی ہے تو اس کی بنیادپاکستان کی دشمنی ہے۔ پاکستان کی فوج اور حکومت کی دشمنی ہے اور امریکا کی لابنگ کی صنعت ان کی سہولت کاری کرتی ہے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ لابنگ کی صنعت بنیادی طور پر صحت اور ماحولیات جیسے امور کے لئے ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کی تنظیمیں اور حکومتیں امریکہ کی توجہ اور فنڈز لے سکیں مگر کیا لابنگ کی یہ انڈسٹری واقعی انہی اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے تواس کاجواب نفی میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا میں سوچنے سمجھنے والوں کولابنگ کی اس انڈسٹری بارے غوروفکرکرتے ہوئے کچھ اخلاقی حدود و قیود میں لانا ہوگا ورنہ امریکی سیاستدان شرمناک طریقے سے کچھ مالدار مافیاز کے مفادات کے تحفظ کے لئے برائے فروخت موجود رہیں گے اور وہ اسے آنریریم، فنڈ ریزنگ اور ڈونیشنز جیسے صاف ستھرے نام دیتے رہیں گے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان کی کہتے ہیں کرتے ہیں امریکی ا لابنگ کی ہیں اور ہے اور ہے مگر کے لئے ہیں کہ
پڑھیں:
امریکی انخلا ایک دھوکہ
اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔
امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔
امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔
وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔
آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔