Express News:
2025-04-26@04:53:41 GMT

لاہور کی تاریخی موتی مسجد میں آج بھی جنات کا بسیرا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

لاہور:

شاہی قلعہ لاہور کی تاریخی موتی مسجد مغل دور کے فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار ہے، جو اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے علاوہ پراسرار کہانیوں کے باعث بھی مشہور ہے۔

عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ یہاں نیک جنات کا بسیرا ہے، جو مسجد کی حفاظت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ملک بھر سے زائرین یہاں نوافل اور وظائف کے لیے آتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نیک جنات کے وسیلے سے کی گئی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔

موتی مسجد میں جنات کی موجودگی کے دعوے

شاہی قلعہ میں تقریباً 27 برس سے کام کرنے والے فوٹوگرافر محمد یاسین کے مطابق، موتی مسجد میں جنات کے پہرہ دینے کی کہانیاں مہا راجا رنجیت سنگھ کے دور سے چلی آ رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہا راجا کے دور میں ایک گورنر یا اس کے عملے نے مسجد کی بے حرمتی کی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے جنات نے یہاں پہرہ دینا شروع کیا۔

محمد یاسین کہتے ہیں کہ ’’رمضان کے دوران ہم نے با رہا محسوس کیا کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن جب سلام پھیرتے ہیں تو مسجد میں صرف چند لوگ ہی موجود ہوتے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق، موتی مسجد میں ایک نیک بزرگ بھی موجود ہیں، جن کا قد غیر معمولی طور پر طویل ہے۔ وہ کئی بار ان بزرگ کو دیکھ چکے ہیں اور ان کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔

زائرین کے عقائد اور دعاؤں کی قبولیت

موتی مسجد میں زائرین، خاص طور پر خواتین، اپنی حاجات لے کر آتی ہیں۔ لاہور کی رہائشی فرزانہ احمد نے اپنی پوتی کے ساتھ مسجد میں نوافل ادا کیے اور دعا کی کہ ان کی پوتی کو ایک نیک رشتہ مل جائے اور وہ اپنی تعلیم میں کامیاب ہو جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیک جنات کے وسیلے سے ان کی دعا جلد قبول ہوگی۔

تاریخی پس منظر

موتی مسجد کی بنیاد 1599ء میں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں رکھی گئی اور اس کی ابتدائی تعمیر کو بادشاہ جہانگیر کے عہد میں وسعت دی گئی۔ بعد ازاں، شاہجہان نے اس مسجد کو سفید سنگِ مرمر سے آراستہ کیا، جس کے باعث اسے ’’موتی مسجد‘‘ کا نام دیا گیا۔

مسجد مغلیہ دور کے بعد سکھوں کے قبضے میں آگئی اور مہا راجا رنجیت سنگھ نے اسے توشہ خانہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس دوران مسجد کے محرابوں میں لوہے کے دروازے نصب کیے گئے اور اس کے نیچے ایک چیمبر بنایا گیا، جہاں قیمتی جواہرات اور ریاستی خزانے کو محفوظ رکھا گیا۔ تاہم، مہا راجا کی وفات کے بعد سکھوں کے آپسی اختلافات کے دوران یہ خزانہ نکال لیا گیا۔

حالیہ بحالی کے کام

والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ طلحہٰ سعید نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں مسجد کی بحالی کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ بحالی کے دوران دیواروں سے وہ تحریریں مٹائی گئیں جو زائرین نے اپنی حاجات اور محبتوں کے قصے لکھ کر چھوڑی تھیں۔

فن تعمیر کا شاہکار

موتی مسجد مغلیہ دور کے فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے۔ سفید سنگِ مرمر سے بنی اس مسجد کی دیواریں، محرابیں اور گنبد اپنی خوبصورتی اور نزاکت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مسجد اپنی منفرد تعمیراتی ڈیزائن کے باعث دنیا کے تاریخی ورثے میں شامل ہے۔

یہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی

یہ واحد مسجد ہے جہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی لیکن زائرین انفرادی طور پر نوافل ادا کرتے ہیں۔ رمضان اور دیگر مقدس مواقع پر یہاں زائرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ زائرین کا کہنا ہے کہ مسجد کا روحانی ماحول اور پراسرار سکون ان کی دعاؤں کو مزید اثرانگیز بنا دیتا ہے۔

عوامی شعور کی اپیل

یہ 400 سال پرانی مسجد نہ صرف لاہور بلکہ دنیا کے تاریخی ورثے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس تاریخی اور مذہبی مقام کو محفوظ رکھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسجد کے تقدس اور تاریخی ورثے کا خیال رکھیں اور اس کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔

موتی مسجد تاریخ، مذہب، اور پراسرار کہانیوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ مسجد نہ صرف ایک روحانی مرکز ہے بلکہ لاہور کے شاندار ماضی کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔ زائرین اور تاریخ کے شائقین کے لیے یہ مقام ہمیشہ ایک کشش کا باعث رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موتی مسجد میں مہا راجا مسجد کی کے دور اور اس

پڑھیں:

کومل عزیز خان نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خوف سے پردہ اٹھادیا

کومل عزیز خان نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خوف سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے شادی سے ڈر لگتا ہے۔

پاکستان کی معروف اداکارہ اور نوجوان کاروباری شخصیت کومل عزیز خان نے حال ہی میں ایک مارننگ شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا خوف دنیا کے سامنے بیان کیا۔

شو میں گفتگو کے دوران کومل عزیز نے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں بہت بہادر ہوں، مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا سوائے شادی کے، یہ میری زندگی کا آخری اور سب سے بڑا خوف ہے، جس پر میں ابھی تک قابو نہیں پا سکی۔

انہوں نے کہا کہ میں دھرنوں میں جا سکتی ہوں، لڑ سکتی ہوں، جاگیرداروں اور پولیس والوں سے بھی الجھ چکی ہوں، لیکن شادی ایک ایسا موضوع ہے جو آج بھی باعثِ تشویش ہے۔

کومل عزیز نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے اردگرد جو شادیاں دیکھی ہیں، وہ نہ تو بہت بری تھیں اور نہ ہی اچھی، بس ایک سمجھوتے کی کیفیت تھی، اس لیے میرے لیے مالی اور جذباتی خود مختاری شادی سے پہلے ضروری ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کپڑے، جوتے، زیورات، بیگز ان سب کی چمک دمک صرف چند دن کی ہوتی ہے، اس کے بعد اصل ذمے داریاں شروع ہوتی ہیں، شادی کے بعد اکثر لڑکیاں نوکری چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ گھر والے آج بھی خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

کومل کا کہنا ہے کہ جذباتی آزادی تب ہی حاصل ہوتی ہے جب عورت مالی طور پر خود مختار ہو اور یہی وہ چیز ہے جسے میں شادی سے پہلے حاصل کرنا چاہتی ہوں۔

یاد رہے کہ کومل عزیز خان ناصرف ایک کامیاب اداکارہ ہیں بلکہ وہ اپنے کپڑوں کے برانڈ Omal by Komal کو بھی کامیابی سے چلا رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے فالوورز کی تعداد 1.6 ملین سے زیادہ ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • میرواعظ عمر فاروق نے ایک ماہ بعد جامع مسجد سرینگر میں جمعہ خطبہ دیا، پہلگام حملہ پر شدید ردعمل
  • سوتیلے باپ کے تشدد کا شکار بالی وڈ کا وہ نامور اداکار جو مسجد کے باہر بھیک مانگنے پر مجبور تھا
  • قادر خان کی زندگی کا وہ دردناک پہلو جب وہ مسجد کے باہر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے
  • کومل عزیز خان نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خوف سے پردہ اٹھادیا
  • غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • اداکارہ ریکھا کی حویلی ’بسیرا‘ کی قیمت جان کر آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے
  • ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"
  • چیف سیکریٹری سندھ نے تاریخی عمارت خارس ہاؤس گرائے جانے کا نوٹس لے لیا
  • امریکا میں ہاؤسنگ اسکیم مع مسجد کا منصوبہ، حکومت نے نفاذ شریعت کے خوف سے مسترد کردیا
  • امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا