جنات، جادو اورمنترجنتر (پہلا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
جنات جادو اورمنتر جنتر اوراس طرح کے دوسرے مافوق البشرموضوعات پر بہت کچھ بولا گیا ہے اورسناگیا ہے، لکھا گیا ہے اورپڑھا گیا ہے اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کیوں کہ بہت ہی قدیم، وسیع اورنفع آور کاروبار ہے بلکہ اس روشن روشن دور میں پہلے سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ جب معاشرہ ناہموار ہوجاتا ہے۔
اس میں ظلم استحصال اوربے انصافی بڑھ جاتی ہے ، مٹھی بھر اشراف سب کچھ کھینچنے اور ہڑپنے لگتے ہیں اورعام انسان بے پناہ دکھوں، محرومیوںاور مجبوریوں کا شکار ہوجاتا ہے، سارے راستے اس پر بند ہوجاتے ہیں تو وہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتا ہے اوراگر کوئی اسے شارٹ کٹ دکھاتا ہے تو اس کے قریب ہو جاتا ہے ۔ ورنہ یہ جادو، تعویذگنڈے اورجنتر منتر یا اس قسم کی کوئی اور فوق البشر، ناممکن العمل اور ماورائی چیزیں نہ تو اس دنیا میں تھیں ،نہ ہیں اورنہ ممکن ہوسکتی ہیں کیوں کہ قدرت کے اس عظیم نہایت باترتیب اورخود کار کارخانے میں ہر کام، ہرچیز، ہر پیدائش اورہرحرکت میں ایسی چیزوں کی گنجائش ہی نہیں، نہ امکان نہ وجود۔کیوں کہ جب سے یہ کائنات ’’کن‘‘ سے شروع ہوکر ’’فیکون‘‘ ہورہی ہے، ایک اصول کے تحت چل رہی ہے جسے قانون الٰہی کہا جاتا ہے اورخالق کل مالک کل قادروتوانا ہستی نے کہا ہے کہ ’’اس قانون الٰہی میں کوئی تبدیلی ہرگزہرگز ممکن نہیں ‘‘
ہرپیدائش ،حرکت، ارتقاء، فنا، عروج وزوال، قدرتی عوامل ، رنج وراحت سب کچھ اسی اصول کے مطابق ہوتا ہے ۔اب کیا یہ ممکن ہے کہ مافوق الفطرت قسم کی مخلوق اس کی سب سے بعد تخلیق انسان پر سوار ہوجائے، اسے تنگ کرے اوراپنی مرضی سے چلائے یا پھر دودوٹکے کے غلیظ اورگندے لوگ جادو ٹونے منتر جنتر اورتعویذ گنڈے سے اس کے قانون میں مداخلت کریں ، ناقابل علاج بیماریوں کاعلاج کریں، لوگوں کی تقدیر بدل دیں، اور خدا کے رواں دواں قانون پر روک لگادیں۔
اب بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بھوکوں مرچکے ہوتے کیوں کہ عقل مند خود تو کچھ نہیں کرتے، احمق سے ان کی کمائی مختلف طریقوں سے چھین کر کھاتے ہیں ، یوں کہیے کہ عقل مند ان احمقوں کے پیراسائٹ یاطفیلی ہوتے۔کبھی مذہب کاجھانسہ دے کر، کبھی وطن کا نشہ دے کر ،کبھی رنگ ونسل کے بانس پر چڑھا کر ، کبھی آزادی کا سبز باغ دکھا کر اورکبھی ’’کل‘‘ کی امید دلاکر ان سے ان کی کمائیاں کھینچ کر ہڑپتے ہیں، اس کے علاوہ ان پندرہ فی صد عقل مندوں کی تھیلی میں اوربھی کئی ڈگڈیاں اور بانسریاں ہوتی ہیں جو موقع ومحل کے مطابق نکال کر بجائی جاتی ہیں اورکم عقلوں کو مسحور کرکے لوٹا جاتا ہے، ان کی کمائیاں چھین کر کھاتے ہیں کچھ بھی نہ کرکے صرف باتوں سے بتنگڑ بنا کر لوٹتے ہیں ۔
کچھ بھی نہ کرنے والی یہ پندرہ فی صد اشرافیہ وسائل کا،پیداوارکا اورپورے ملک کاپچاسی فی صد ہڑپتی ہے جب کمانے والی، پیدا کرنے والی، مہیا کرنے والی عوامیہ عرف احمقوں کوان کی اپنی کمائی کا پندرہ فی صد بھی نہیں ملتا۔ایسے میں ان ہی عقل مندوں کے کچھ ساجھے دار ان کو طرح طرح کے شارٹ کٹ اور سبز باغ دکھاتے ہیں ، ناممکن قسم کی امیدیں اورسنہرے ’’کل‘‘ بیچتے ہیں ۔اگلے زمانوں میں یہی ’’مندرومحل‘‘ کی ساجھے دار اشرافیہ احمق عوامیہ کو لوٹ لوٹ کربے حال کردیتی ، تو یہ مذہب کاہتھیار استعمال کرنے والے ان کو بتاتے ہیں کہ تمہارے اعمال برے ہیں ، دیوتا تم سے ناراض ہیں کچھ لاؤ تاکہ ہم دیوتاؤں کو تم پر مہربان کریں۔
اس طرح اگر ان میں کچھ خون کے قطرے بچے ہوتے تو انھیں بھی چوس لیتے۔ چاہے نام بدلے ہو، مقام بدلے ہو، لوگ بدلے ہوں لیکن طریقہ وارادات اب بھی وہی ہے، وہی عقل مندوں پر مبنی پندرہ فی صد اشرافیہ ، پچاسی فی صد احمقوں کو اسی طرح لوٹتی ہے ۔ سارا کھیل ہزاروں سالوں سے جاری ہے کہ عقل مند اشرافیہ نے ہی ان پچاسی فیصد کو احمق بنایا ہوا ہے، انھوں نے عوامیہ کو دماغ کے عدم استعمال پر لگایا ہوا ہے اور یہ تو آج کے بچے بھی جانتے ہیں کہ یہ جو چیز یا عضو زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
وہ ترقی کرکے طاقتور ہوجاتی ہے اورجس کااستعمال نہیں ہوتا وہ کمزور ہوکر معدوم اور صفر ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اشرافیہ یا عقل مندوں نے اپنے مذہبی ساجھے دارکے ذریعے پچاسی فی صد احمقوں کو یقین دلایا کہ حکمران دیوتا ہے ، دیوتا زادہ ظل اللہ ہے،سایہ خدائے ذوالجلال ہے، اس لیے سوچنا اور دماغ سے کام لینا اسی کا کام ہے اوران کے کہے پر عمل کرنا تمہارا کام ہے ، تمہارا کام اس کے کہنے کے مطابق صرف جسم سے کام لینا اور اسے پالنا ہے، یوں ہزاروں سال سے استعمال اور عدم استعمال کے اس عمل کے ذریعے عوام کو صرف ’’جسم‘‘ اوراشراف کو ’’دماغ‘‘ بنایا جا چکا ہے۔چنانچہ عقل مند نعرے ،نظریے ، عقیدے اور دوستیاں دشمنیاں ’’ایجاد‘‘ کرتے ہیں اوراحمق اور بے دماغ عوامیہ اس پر بے سوچے سمجھے عمل کرتی ہے کہ سوچنے کاکام دماغ کرتا ہے اوروہ اس کے پاس رہا نہیں ہے۔
اب اس صورت حال میں جب احمقوں پر سارے راستے بند ہوجاتے ہیں، عقل مندوں کے استحصال سے بے حال اوربدحال ہوجاتے ہیں تو شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اوروہ شارٹ کٹ ان کو یہ عامل جنات ،جادو ، جنتر منتر اور تعویذ گنڈوں والے دکھاتے ہیں ۔چونکہ ان خالی دماغ احمقوں کی ایک کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ مذہب کے نام پر آسانی سے شکارہوجاتے ہیں،اس لیے ان کو مذہب ہی کے راستے دھوکا دیاجاتا ہے ،مائل کیاجاتا ہے، پھنسایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پندرہ فی صد کیوں کہ شارٹ کٹ جاتا ہے ہے اور
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)