Express News:
2025-11-02@10:51:59 GMT

دجال آ چکا ہے

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ جرمنی کے آمر اوڈلف ہٹلر نے 1938میں چیکو سلواکیہ کے علاقے سوڈی ٹین لینڈ (Sudetenland) پر حملہ کردیا جس کے بعد یورپ پریشان ہو گیا‘ چیمبرلین نے فوری طور پر جرمنی کا دورہ کیا‘ ہٹلر نے اسے اپنی فوج‘ گولہ بارود اور جنگی جہازوں کے کارخانے دکھائے اور برطانوی وزیراعظم کو یقین دلایا یہ میں نے صرف اپنے دفاع کے لیے اکٹھے کیے ہیں‘ مجھے خطرہ ہے سوویت یونین مجھ پر حملہ آور ہو جائے گا‘ میںاگر مضبوط ہوں گا تو یورپ بچے گا ورنہ روسی اسپین تک پورے یورپ کو نگل جائیں گے ‘ چیمبرلین نے اس دوران شک کا اظہار کیا تو ہٹلر نے اسے دفاعی معاہدے کی پیش کش کر دی لہٰذا 30 ستمبر 1938کو میونخ میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان نو وار ایگریمنٹ ہو گیا۔

 اس معاہدے میں فرانس اور اٹلی بھی شامل ہو گئے‘ چیمبرلین مطمئن ہو گیا‘ اس کا خیال تھا ہٹلر خود کو صرف مشرقی یورپ کے جرمن علاقوں تک محدود رکھے گا لیکن سرونسٹن چرچل اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا تھا‘ اس کا کہنا تھا ہٹلر بہت جلد سینٹرل یورپ پر قبضہ کرے گا اور برطانیہ پر بھی حملہ آور ہو گا‘ ہمیں ابھی سے اپنے دفاع کا بندوبست کر لینا چاہیے‘ چیمبرلین اس دعوے پر اس کا مذاق اڑاتا تھا یوں برطانیہ کے ایوان نمایندگان میں دونوں کے درمیان زبردست بحث ہوتی تھی‘ چرچل اپنی ہر تقریر میں کہتا تھا جرمنی کے پاس دفاع سے زیادہ اسلحہ اور فوج ہے اگر اس نے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑنی تو پھر اس نے اتنی بڑی فوج اور اتنا زیادہ اسلحہ کیوں جمع کیا ہوا ہے؟ ہٹلر کوئی بڑا سوچ رہا ہے‘ اس کی کوئی بڑی پلاننگ ہے چناں چہ ہمیں میونخ ایگریمنٹ کے باوجود تیار رہنا چاہیے۔

 ونسٹن چرچل کا یہ خدشہ بعدازاں سچ ثابت ہوا‘ ہٹلر نے پہلے میونخ ایگریمنٹ کے بعد مشرقی یورپ نگلا اور پھر اس نے پولینڈ اور پھر ڈنمارک‘ ناروے‘ نیدرلینڈ‘ لکسمبرگ‘ فرانس‘ یوگوسلاویہ اور یونان پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے برطانیہ پر بھی فضائی حملے شروع کر دیے‘ یہ حملے اس قدر شدید اور خوف ناک تھے کہ چیمبرلین نے استعفیٰ دے دیا اور چرچل کو وزیراعظم بنوا دیا اور اس کے بعد چرچل نے نہ صرف برطانیہ کو بچا لیا بلکہ ہٹلر کو شکست دے کر پوری دنیا بھی بچا لی‘ چرچل سے اس زمانے میں پوچھا جاتا تھا ’’تمہیں میونخ ایگریمنٹ کے بعد کیسے معلوم تھا ہٹلر برطانیہ تک ضرور آئے گا‘‘ چرچل کا جواب ہوتا تھا ہٹلر کی جنگی تیاری اور میونخ ایگریمنٹ کا بیلنس ٹھیک نہیں تھا لہٰذا میرا اندازہ تھا یہ شخص اتنی فوج اور اتنے بارود کے ساتھ مشرقی یورپ تک محدود نہیں رہے گا اور پھر یہی ہوا‘‘۔

ہم اب تھوڑی دیر کے لیے دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر اور چرچل کو سائیڈ پر رکھتے ہیں اور امریکا کے تازہ ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف آتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے تابڑ توڑ اقدامات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ ٹرمپ نے دو دن قبل کولمبیا کے ذریعے دنیا کو مزید پریشان کر دیا‘ امریکی جیلوں میں کولمبیا کے غیرقانونی شہری بند ہیں‘ ٹرمپ نے پہلے صدارتی دن تمام غیر قانونی تارکین کو نکالنے کا حکم جاری کر دیا‘ اس کا آغازکولمبیا سے کیا گیا‘امریکی حکومت نے کولمبین شہریوں کے دو جہاز بھرے اور انھیں بگوٹا بھجوا دیا‘ کولمبیاکے صدرگستاوو پیٹرونے ان جہازوں کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو پتا چلا تو اس نے نہ صرف کولمبیا کی امپورٹس پر 25 فیصد ڈیوٹی لگا دی بلکہ اس ڈیوٹی کو ایک ہفتے میں 50 فیصد تک لے جانے کا آرڈر بھی دے دیا۔

 ٹرمپ نے اس کے ساتھ ساتھ کولمبین حکومت کے تمام سرکاری عہدیداروں کے امریکا میں سفر اور حکومتی پارٹی کے تمام ارکان‘ ان کے خاندانوں اور سپورٹرز کے ویزے بھی منسوخ کر دیے‘ ٹرمپ نے یہ تمام احکامات ایکس پر ٹویٹ کے ذریعے دیے‘ کولمبیا امریکا کو سالانہ 14 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے جن میں کافی پہلے نمبر پر آتی ہے۔ ’’اسٹار بکس‘‘ کو لمبین کافی کا سب سے بڑا خریدار ہے‘ اس ٹویٹ کے ساتھ ہی امریکا میں کافی مہنگی ہوگئی لیکن کولمبیا میں اس کی مارکیٹ کریش کر گئی‘ کولمبین ارکان اسمبلی ‘ حکمران جماعت کے ممبرز اور ان کے خاندان اور بیوروکریٹس اور بزنس مینوں کی فیملیز بھی پریشان ہو گئیں چناں چہ صرف تین گھنٹے بعد کولمبیا کی حکومت گھٹنوں پر آگئی اور اس نے نہ صرف امریکی جہازوں کو اترنے اور کولمبین تارکین وطن کو واپس لینے کی اجازت دے دی بلکہ امریکا کی تمام پابندیاں اور شرائط بھی مان لیں۔

 یہ ٹرمپ کا پہلا ’’ڈیمو‘‘ تھا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ پوری دنیا میں امریکی امدادی سرگرمیاں بھی معطل کر دیں‘ یہ عالمی فورمز اور ایگریمنٹس سے بھی نکل گیا‘ یوکرائین جنگ میں یوکرائین کی مدد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا‘ میکسیکو کو بھی ٹائیٹ کر دیا‘ افغانستان اور جنگ زدہ افریقی ملکوں کی امداد بھی بند کر دی ہے اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے رقم دینے سے بھی انکار کر دیا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ غزہ کے مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے اور اردن اور مصر کو انھیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کا حکم بھی دے دیا ‘آپ تصور کیجیے اگر اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے تو غزہ کا علاقہ بھی فلسطین کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ امریکا کے پاس چلا جائے گا یا پھر ٹرمپ اسے اسرائیل کے حوالے کر دے گا اور یوں اسرائیل کے سائز میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے بعد اسرائیل حضرت سلیمان ؑ کے زمانے کے اسرائیل کی طرف بڑھنے لگے گا‘ اسرائیلی اسے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کہتے ہیں‘ مدینہ منورہ بھی اس کا حصہ ہے‘ مصر اور اردن سردست انکار کر رہے ہیں لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ڈٹ گیاتوکولمبیا کی طرح ان کو بھی امریکا کا حکم ماننا پڑے گا ورنہ امریکا ان کی امداد بند کر دے گا اور یہ دونوں بھی گھٹنوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

 دوسری طرف ٹرمپ نے سعودی کراؤن پرنس سے امریکا میں ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کر دیا‘ محمد بن سلمان نے فوری طور پر 600 ارب ڈالر کی پیش کش کرکے جان چھڑائی‘ سعودی عرب کے بعد یو اے ای اور قطر کی باری ہے‘ انھیں بھی کم از کم پانچ سو ارب ڈالر امریکا میں لگانا پڑیں گے‘ ٹرمپ امپورٹس کا ٹیرف بھی بڑھا کر رہے گا‘یہ امپورٹس کو بھی نصف تک لے آئے گا‘ امریکا میں امیگریشن پربھی پابندی لگ چکی ہے اور چین اور امریکا کی معاشی لڑائی بھی اب سر پرکھڑی ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کچھ کیوںکر رہا ہے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں۔

 پہلا جواب یہ صرف اور صرف امریکا کے بارے میں سوچ رہا ہے‘ یہ امریکیوں کا صدر ہے اور امریکا کے صدر کو اپنے لوگوں کے مفاد کو فوقیت دینی چاہیے اور یہ دے رہا ہے‘ اس کے فیصلوں سے اب امریکی معیشت بہتر ہو گی‘ مہنگائی میں کمی آئے گی‘ بے روزگاری نیچے آئے گی‘ اسٹاک ایکس چینج میں استحکام آئے گا اور عام امریکی شہری کا معیار زندگی بلند ہو گا‘ یہ چین اور بھارت سے درآمدات کے بجائے ’’میڈ ان امریکا‘‘ کو بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ امریکی صنعت ’’ری وائیو‘‘ کر سکے‘  یہ بزنس مین ہے اور بزنس مین پیسہ بچانا اور کمانا جانتے ہیں لہٰذا اس کی نظر ان معاشی سوراخوں پر ہے جہاں سے امریکی سرمایہ رس رہا ہے‘ یہ امریکا پر تارکین وطن کا بوجھ بھی کم کر رہا ہے‘ اس کا خیال ہے ہم بھکاریوں اور مجرموں میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کریش کر رہی ہے اور یہ امریکا کو گریٹ بنانا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ٹرمپ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس کا دوسرا جواب یہ ہے یہ کوئی بڑا پلان تیار کر رہا ہے‘ یہ بڑا سوچ رہا ہے‘ امریکا اسلحے اور وار ٹیکنالوجی میں نمبرون ہے‘اس کے پاس اس وقت کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے پیسہ‘ امریکا کی معیشت بری طرح مقروض ہو چکی ہے اور اس گرتی ہوئی معیشت اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے امریکا کوئی بڑی گیم پلان نہیں کر سکتا‘دوسری طرف دنیا میں اگر کسی قوم یا ملک کے پاس سرمایہ ہے تو وہ ہے چین ‘ چین کے پاس فارن ایکس چینج ریزروز بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی‘ چین نے چھ ملین ڈالر میں ’’ڈیپ سیک‘‘ بنا کر نہ صرف امریکی چیٹ جی پی ٹی کا بیڑہ غرق کر دیا بلکہ امریکا کا ٹیکنالوجی کا غرور بھی مٹی میں ملا دیا چناںچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت صرف دو چیزیں چاہییں‘ ٹیکنالوجی اور پیسہ اور یہ بڑی تیزی سے اس سمت دوڑ رہا ہے۔

 اس نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح ٹیکنالوجی کو فوقیت دی‘ اس نے جس طرح ’’آئی ٹی‘‘ کی کمپنیوں کو ساتھ ملایا ‘ جس طرح ان میں سرمایہ کاری شروع کرائی‘جس طرح سرمائے کی لیکیج روکنا شروع کی‘ جس طرح پیسہ جمع کرنا شروع کیا اور جس طرح امریکا کو دوسرے ملکوں کی محتاجی اور ضرورت سے آزاد کرنا شروع کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے اسے بہت جلدی ہے‘ یہ جلد سے جلد امریکا کا امپورٹس پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے‘ یہ اپنے ریزروز بہتر بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ اپنا منصوبہ مکمل کر سکے‘ مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کے اندر چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کی اسپرٹ بھی نظر آ رہی ہے۔

 صدرشی چن پنگ نے 2018میں اپنے آپ کو تاحیات صدر بنوا لیا تھا‘ مجھے خطرہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہیں خود کو تاحیات صدر نہ بنوا لے یا امریکا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی حکومت کا اعلان نہ کر دے اگر اس کا پلان یہ ہے تو پھر یہ اس کا آغاز کینیڈا اور گرین لینڈ سے کرے گا اگر اس نے گرین لینڈ اور کینیڈا پر قبضہ کر لیا تو پھر اسے تاحیات صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر آپ دنیا کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے‘ ایک طرف روس میں پیوٹن تاحیات صدر ہوگا‘ دوسری طرف چین میںشی چن پنگ تاحیات صدر ہوگا اور تیسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی واحد سپر پاور کا تاحیات صدر ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی تیسری عالمی جنگ شروع نہیں ہوتی تو پھر یہ واقعی معجزہ ہو گا‘ اﷲ تعالیٰ اب دنیا اور زمین دونوں پر رحم کرے ‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے دجال آ چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میونخ ایگریمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں تاحیات صدر اس کے ساتھ امریکا کے امریکا کو کر رہا ہے جائے گا اور اس اور یہ ہے اور کو بھی کے بعد تو پھر کر دیا ہو گیا گا اور کے پاس اگر اس

پڑھیں:

ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کو حکم دیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرے تاکہ امریکا دیگر جوہری ممالک کے ساتھ برابر کی بنیاد پر کھڑا ہوسکے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان جنوبی کوریا کے شہر بوسان سے اپنے ایشیائی دورے کے اختتام پر وطن واپسی سے قبل کیا۔

انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری آبدوز بنانے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ میں نے محکمہ جنگ (محکمہ دفاع) کو ہدایت دی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ دیگر ممالک کی طرح اور فوری شروع کرے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ دیگر ممالک، خصوصاً چین اور روس، اپنے ایٹمی پروگراموں کے تجربات تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے بقول امریکا کے پاس دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں لیکن چین اگلے پانچ برسوں میں اس سطح کے قریب پہنچ سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ انھوں نے جنوبی کوریا کو اپنی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت دے دی ہے۔

یہ آبدوز فلاڈیلفیا (امریکا) میں جنوبی کورین کمپنی ہنوا (Hanwha) کے شپ یارڈ میں تیار کی جائے گی۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی کوریا اب اپنی پرانی، ڈیزل آبدوزوں کو الوداع کہے گا۔ نئی جوہری آبدوزیں زیادہ جدید، تیز اور پائیدار ہوں گی۔

اس فیصلے سے جنوبی کوریا ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو جوہری آبدوزوں کے مالک ہیں، جن میں اس وقت امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔

جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے ٹرمپ سے ملاقات میں مطالبہ کیا تھا کہ امریکا-جنوبی کوریا جوہری معاہدے میں نرمی کی جائے تاکہ سیول یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ میں زیادہ خود مختاری حاصل کر سکے۔

تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹرمپ ایٹمی دھماکوں کی بات کر رہے تھے یا جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کے تجربات کی۔

یاد رہے کہ امریکا نے آخری بار 1992 میں ایٹمی دھماکا کیا تھا جس کے بعد صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے ایٹمی تجربات پر پابندی عائد کر دی تھی۔

1996 میں جامع ایٹمی تجربہ بندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط کیے گئے اور اس کے بعد صرف تین ممالک بھارت (1998)، پاکستان (1998، دو بار) اور شمالی کوریا (پانچ بار) نے جوہری دھماکے کیے۔

اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا کے پاس تقریباً 5,550 جوہری ہتھیار ہیں جن میں سے 3,800 فعال ہیں۔

روس کے پاس 5,459 ہتھیار ہیں جب کہ چین کا ذخیرہ تیزی سے بڑھ کر 600 کے قریب ہو چکا ہے جو 2030 تک 1,000 سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • مسیحیوں کے قتل عام کا الزام، ٹرمپ کی نائیجیریا میں فوجی کارروائی کی دھمکی
  • نائیجیریا میں عیسائیوں کا قتل عام نہ رُکا تو فوجی کارروائی کریں گے، ٹرمپ کی دھمکی
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟
  • ایران کا امریکا پر جوہری دوغلا پن کا الزام، ٹرمپ کے جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت
  • ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان
  • حالیہ ہتھیاروں کے تجربات ’ایٹمی نہیں‘ ٹرمپ کے ایٹمی تجربات کے اعلان پر روس کا رد عمل