پاکستان فلم انڈسٹری میں نیلو کی زندگی کے دو سنہرے دور
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
نیلو سے زرقا ہو یا فلم بھوانی جنکشن سے فلم وار کا کٹھن سفر کامیاب رہا، فن کار دُنیا سے چلا جاتا ہے، مگر اس کا فن اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔ ماضی کی نامور سینئر اداکارہ نیلو بیگم کا شمار بھی ماضی کی صف اول کی اداکاروں میں ہوتا ہے۔ نیلو جی نے پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک بہت ہی یاد گار دور گزارا، شہرت کی بلندیوں کو چُھوا، ہر کرادار میں ڈوب کر اداکاری کی۔
ذاتی زندگیمعروف اداکارہ نیلو کا تعلق بھیرہ سے تھا، جہاں وہ 30 جون 1940 کو پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق کیتھولک عسائی مذہب سے تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد عابدہ ریاض نام رکھا،عابدہ ریاض بن کر وہ ریاض شاہد کے نکاح میں آگئیں۔ نیلواور ریاض شاہد کے 3 بچے ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی زرقا، بڑابیٹا اعجاز شاہد اور چھوٹا بیٹا ارمغان شاہد ہیں۔ ارمغان شاہد فلمی دنیا میں شان کے نام سے معروف ہیں۔
ابتدائی فلمی سفرنیلو نے ہالی وڈ فلم بھوانی جنکشن کے ذریعے 1956 میں فلمی صنعت میں قدم رکھا، فلم میں بطور ایکسٹرا لیڈی پریس رپورٹر کے مختصر کردار میں نظر آئیں۔ اس فلم کے بعد اداکاری کا شوق انہیں لاہور کے نگار خانوں میں لے گیا۔ 1956 میں انہوں نے کئی ایکسٹرا رول ادا کئے۔
ہدایت کار ایم جے رانا کی پنجابی فلم ماہی منڈا کے سپرہٹ گانے انا والیاں دے پکن پروٹھے میں نیلو مختصر سین میں دکھائی دیں۔ اسی سال نمائش ہونے والی پنجابی فلم دُلا بھٹی میں ایک کنیز کا مختصر کردار بھی مِلا۔ پچاس کی دہائی کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار نذیر نے انہیں پہلی بار فلم صابرہ میں نیلو کے نام سے کاسٹ کیا۔
ایکسٹرا سے ہیروئن بننے کا سفرنیلو نے ایک سال میں معمولی ایکسٹرا سے ہیروئن بننے کا سفر بڑی جدوجہد کے ساتھ طے کیا۔ 1957 میں جعفر ملک کی سپر ہٹ فلم “سات لاکھ” کے گانے “آئے موسم رنگیلے سہانے” میں پرفارم کرنے کے بعد انڈسٹری میں قدم جمایا۔
نیلو بیگم نے اپنے فنی کیریئر میں “دوشیزہ، عذرا، زرقا، بیٹی، ڈاچی، جی دار، شیر دی بچی اور ناگن” جیسی سپرہٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا کر لاکھوں پرستاروں کے دل جیتے۔
صفِ اول کی ہیروئنانتھک محنت کی وجہ سے نیلو کو صفِ اول کی ہیروئنوں جیسے مسرت نذیر، صبیحہ خانم اور نور جہاں کے ساتھ ثانوی کرداروں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔ 1958 میں ہدایت کار امین ملک کی پنجابی فلم “کچی کلیاں” میں پہلی بار اداکار اسلم پرویز کے مدِ مقابل سولو ہیروئن کی حیثیت سے سامنے آئیں۔
1959 میں ہدایت کار خلیل قیصر کی میوزیکل فلم “ناگن” نے نیلو کو صفِ اول کی ہیروئن بنا دیا۔ 1964 میں ہدایت کار رضا میر کی فلم “بیٹی” میں نیلو نے ماں کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم اپنے دور کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔
رفاقت اور ازدواجی زندگیپاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کی ہیروئن نیلو 1966 میں پنجابی فلم “نظام لوہار” کی تکمیل کے دوران فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف ریاض شاہد کی نظروں میں ایسی سمائیں کہ دونوں نے شادی کر لی۔
پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی۔ ایسے میں ریاض شاہد کے انقلابی کردار “زرقا” نے اس جدوجہد کو سنیما سکرین پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
فلم کی کہانی اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی داستان “زرقا” پر مبنی تھی۔ 1969 میں ریاض شاہد کی شہرہ آفاق فلم “زرقا” نے نیلو کو ایک تاریخ ساز اداکارہ بنا دیا۔
فلسطین کی آزادی کے موضوع پر بننے والی اس فلم کو نہ صرف پاکستان میں کامیابی ملی، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی پسند کیا گیا۔ “زرقا” نے 8 شعبوں میں ایوارڈ حاصل کیے اور یہ پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی۔
اداکارہ نیلو کو 1965 میں اس وقت کے گورنر پنجاب نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہ ایران کے دورے کے موقعے پر گورنر ہاؤس کی تقریب میں نیلو کو رقص کے لیے طلب کیا گیا۔ جس میں جانے سے انکار پر نیلو کو ڈرایا دھمکایا گیا، ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی، جس سے دل بردشتہ اداکارہ نے خود کُشی کی کوشش کی۔ بعدازں ترقی پسند شاعر حبیب جالب نے اس واقعے پرنیلوکےعنوان سے نظم کہی۔
نیلو؛ فلمی دنیا کا دوسرا دور1972 میں ریاض شاہد کینسر کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور نیلو کو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے ایک دفعہ پھر فلمی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔ 1974 میں نیلو کے فلمی کریئر کے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ اس دوسرے دور میں ریلیز ہونے والی ان کی پہلی فلم خطرناک تھی، جو پنجابی زبان میں بنائی گئی تھی۔
ساٹھ کی دہائی کا بوم؛ مختف زبانوں میں بہترین فلمیںنیلو نے اپنے پہلے دور میں 100 کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا۔ دوسرے دور میں ان میں 50 فلموں کا اضافہ ہوا، جن میں بیشتر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔ فلمی مورخ شہنشاہ حسین کے مطابق نیلو کی 151 فلموں میں سے 80 فلمیں اردو میں 69 فلمیں پنجابی میں اور ایک، ایک فلم پشتو اور سندھی زبان میں بنائی گئی تھی۔
جذباتی کردار نگاری سے پہلی بار فلم بینوں کو بے حد متاثر کرنے والی نیلو کی کامیاب فلموں میں نیند، کوئل، پاسبان، جانِ بہار، زیر عشق، یکے والی، آخری نشان، یار بیلی، ایاز، اسٹریٹ 77، آنکھ کا نشہ، سردار، سلطنت، نغمہ ٔ دل، پھولے خان، اور جٹی میں انہوں نے سائیڈ ہیروئن کے کردار کیے۔ نیلو نے مجموعی طور پر 4 نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔
وفاتپاکستان انڈسٹری کے مشکل وقت میں خود کو منوانے والی اداکارہ نیلو 30 جنوری 2021 کو وہ طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہوئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجابی فلم ان کی پہلی ہدایت کار فلموں میں کی ہیروئن ریاض شاہد میں نیلو نیلو کو نیلو نے کے بعد اول کی
پڑھیں:
پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔
مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔
موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔
یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔
یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔
ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔
1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔
یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔
اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔