کرم معاہدے پر عملدرآمد میں کون رکاوٹ ہے؟ علامہ احمد اقبال کا علی امین سے سوال
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ پاراچنار معاہدے کے اٹھائیس دن بعد بھی راستہ نا کھلنا سوالیہ نشان ہے، معاہدے پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا، وزیر اعلی بتائیں کہ معاہدے پر عملدرآمد میں کیا مشکلات ہیں اور اس میں کون رکاوٹ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈہ پور کی زیر صدارت کرم کی کشیدہ صورتحال پر اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان بھر کی اہم مذہبی جماعتوں اور ملی یکجہتی کونسل کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مشاورتی اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے وائس چیئرمین ایم ڈبلیو ایم علامہ سید احمد اقبال رضوی اور مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے شرکت کی۔ اس موقع پر وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ پاراچنار معاہدے کے اٹھائیس دن بعد بھی راستہ نا کھلنا سوالیہ نشان ہے، معاہدے پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا، وزیر اعلی بتائیں کہ معاہدے پر عملدرآمد میں کیا مشکلات ہیں اور اس میں کون رکاوٹ ہے، پاراچنار میں رستے کھلوانے کے لئے احتجاج کرنے پر ہمارے تحصیل میئر مزمل حسین فصیح کو گرفتار کیا گیا ہے، مطالبہ کرتے ہیں انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: احمد اقبال معاہدے پر
پڑھیں:
وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا: اختیار ولی
—فائل فوٹوزوزیرِاعظم کے کو آر ڈینیٹر برائے اطلاعات اختیار ولی کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
اپنے بیان میں اختیار ولی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پروپیگنڈا نیٹ ورک نے ویڈیوز کو جعلی قرار دینے کی مہم شروع کر دی، ویڈیوز کی فرانزک کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
اختیار ولی نے کہا کہ سہیل آفریدی کی ویڈیوز کو کسی اور موقع کی قرار دینے سے جرم کی سنگینی کم نہیں ہو جاتی، سہیل آفریدی کا جرم 9 مئی کے دیگر مجرموں سے زیادہ سنگین ہے۔
وزیرِ اعظم کے کو آر ڈینیٹر نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ نے ریاست کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، حلف اٹھانے کے بعد بھی ان کے بیانات ہر اعتبار سے قابلِ گرفت ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کی تقاریر اور بیانات حلف کی سنگین خلاف ورزی ہیں، یہ کسی طور وزارتِ اعلیٰ کےاہل نہیں رہے۔