اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جنوری ۔2025 )پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد میں کمی ”سمارٹ فون سب کے لیے“ کا اہم چیلنج ہے جس سے ڈیجیٹل تقسیم کو وسیع کرنے اور ملک بھر میں سماجی و اقتصادی ترقی کو روکنے کا خطرہ ہے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس میں امپلیمینٹیشن فنانشل لٹریسی کے سابق مینیجر اعتزاز حسین نے کہا کہ موبائل صارفین میں حالیہ کمی ملک کی ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کی کوششوں کو ایک اہم دھچکا ہے.

انہوں نے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کا”سمارٹ فون سب کے لیے“اقدام جس کا مقصد قابل رسائی اسمارٹ فون کی قسط کے منصوبوں کے ذریعے ڈیجیٹل شمولیت کو بڑھانا ہے اب صارفین کی تعداد میں کمی کے چیلنج کا سامنا ہے. انہوں نے کہا کہ اس کمی کے مضمرات گہرے ہیں اگرچہ اس اقدام میں اسمارٹ فون کی رسائی میں اضافہ کرکے معاشی ترقی کو فروغ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے موجودہ رجحان اس کے ممکنہ فوائد کو کمزور کرتا ہے پاکستان میں سیلولر صارفین کی تعداد اکتوبر 2024 کے آخر میں 193.309 ملین سے کم ہو کر نومبر کے آخر تک 193.238 ملین رہ گئی اسی طرح 3 اور 4جی صارفین اسی عرصے میں 139.123 ملین سے کم ہو کر 139.037 ملین ہو گئے ماہانہ نیکسٹ جنریشن موبائل سروس کی رسائی کی شرح اکتوبر 2024 میں 57.02 فیصد سے گھٹ کر نومبر میں 56.9 فیصد رہ گئی سمارٹ فون کو وسیع پیمانے پر اپنانا معاشی سرگرمیوں جیسے کہ ای کامرس اور ڈیجیٹل بینکنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم ہے جو ملک کے جی ڈی پی میں حصہ ڈالنے اور مارکیٹ کی شرکت کو بڑھانے کے لیے ضروری ہیں تاہم کم سبسکرائبرز کے ساتھ ڈیجیٹل اکانومی میں متوقع فروغ توقع کے مطابق نہیں ہو سکتا.

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ روزگار کی تخلیق اور نئے کاروباری ماڈل جو اسمارٹ فون کے بڑھتے ہوئے استعمال پر انحصار کرتے ہیں خطرے میں ہیں ایپ ڈویلپمنٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبے مضبوط صارف کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں اس طرح، سبسکرائبرز میں کمی ملازمت کے مواقع کو روک سکتی ہے اور ٹیک سے چلنے والے روزگار کے شعبوں کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے.

ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو احد نذیر نے اس بات پر زور دیا کہ اسمارٹ فونز مالی شمولیت کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہیں خاص طور پر غیر بینک والے کمیونٹیز کے لیے تاہم موبائل صارفین کی کم ہوتی تعداد ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ یہ ضروری مالیاتی خدمات تک رسائی کو محدود کر سکتی ہے اور بہت سے گھرانوں کو مالی استحکام حاصل کرنے سے روک سکتی ہے.

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل تقسیم ایک اہم مسئلہ ہے خاص طور پر پسماندہ کمیونٹیز کے لیے۔

(جاری ہے)

موبائل سبسکرپشنز میں کمی دیہی اور غیر محفوظ علاقوں میں موجودہ کنیکٹیویٹی خلا کو بڑھا دیتی ہے جسے ”سمارٹ فون سب کے لیے“اقدام کا مقصد پورا کرنا ہے انہوں نے کہاکہ سستی اسمارٹ فون کے اختیارات فراہم کرکے یہ پالیسی ان تفاوتوں کو نشانہ بنا سکتی ہے تاہم سبسکرائبرز میں مجموعی طور پر کمی کے ساتھ ایک متوازن ڈیجیٹل لینڈ سکیپ کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے سمارٹ فونز سیکھنے کے وسائل تک رسائی کو بڑھا کر اور دور دراز کی تعلیم کی سہولت فراہم کرکے تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں موبائل سبسکرپشنز میں کمی آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز تک رسائی کو محدود کر کے اور مہارت کی ترقی کے مواقع کو کم کر کے ان شعبوں میں پیش رفت کو روک سکتی ہے.


ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سمارٹ فون سب کے لیے صارفین کی تعداد موبائل صارفین انہوں نے کہا اسمارٹ فون نے کہا کہ سکتی ہے

پڑھیں:

ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر

اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔ 

زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔

سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…

رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔

یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔

رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔

بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔

ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔

تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔

یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟

متعلقہ مضامین

  • سمارٹ میٹرز لگوانے والوں کے لئے نئی پریشانی کھڑی
  • پاکستان اور کینیڈا کا ہائبرڈ بیج، لائیو اسٹاک کی افزائش میں تعاون بڑھانے پر غور
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • نادرا کا ڈیجیٹل پاکستان کی جانب ایک اور قدم، نکاح کے آن لائن اندراج کا آغاز
  • میزان بینک اور ویزا کے درمیان شراکت داری میں توسیع کا معاہدہ
  • لیسکو میں اے ایم آئی سمارٹ میٹرز کی خریداری میں بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • پاکستان آئیڈل کا جج بننے پر تنقید، فواد خان نے خاموشی توڑ دی
  • واٹس ایپ میں پاس کیز فیچر متعارف، بیک اپ تک رسائی مزید آسان