پہلے مرحلے میں 7 پاکستانی مراکش سے براستہ دبئی اور دوحہ پاکستان واپسی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
مراکش کشتی حادثہ میں بچ جانے والے سات پاکستانیوں کی واپسی کا معاملے پر ایف آئی اے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق اسپین پہنچنے کیلئے ایجنٹوں سے سولہ لاکھ سے پچیس لاکھ روپے فی کس طے پائے۔
مراکش کشتی حادثہ میں بچ جانے والے سات پاکستانی دو مختلف فلائٹس کے ذریعے اسلام آباد پہنچے ۔
نجی ٹی وی کے مطابق براستہ دبئی واپس آنے والوں میں عامر علی، عزیز بشارت، عمران اقبال اور شعیب ظفر شامل ہیں محمد آصف، مدثرحسین اور عباس کاظمی براستہ دوحہ مراکش سے اسلام آباد آئے ہیں واپس آنے والوں کا تعلق منڈی بہاالدین، گجرات،حافظ آباد اور سیالکوٹ سے ہے۔
واپسی پر ایف آئی اے امیگریشن سرکل تھانے میں پوچھ گچھ کی گئی ابتدائی تفتیش کے مطابق حادثہ متاثرین غیر قانونی طریقے سے براستہ سینیگال اسپین جانا چاہتے تھے اس کیلئے فی کس سولہ سے پچیس لاکھ روپے فی کس طے پائےتھے۔
ایجنٹوں کا تعلق وزیرآباد، لاہور،گجرات اور سیالکوٹ کے علاقوں سے ہے ایجنٹوں کی نشاندہی کے حوالے سے معلومات لی جا رہی ہیں متاثرین نے بیان دیا ہےکہ مراکش میں انسانی اسمگلرز نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔