حماس کے رہنماوں سے اپنی ایک ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، قبضے کے خاتمے اور اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے جاری فلسطینی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" اس وقت "دوحہ" میں موجود ہیں جہاں انہوں نے آج دوپہر کو فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے سینئر رہنماوں سے ملاقات کی۔ ان میں حماس کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "محمد اسماعیل درویش" بھی شامل ہیں۔ اس ملاقات میں غزہ کی پٹی کی تازہ ترین صورت حال، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے جیسے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر سید عباس عراقچی نے فلسطینی عوام اور مقاومت کے رہنماوں کو رہبر معظم انقلاب، ایرانی صدر، حکومت و عوام کا پُرتپاک سلام پہنچایا۔ انہوں نے غزہ کے عوام کی پائیدار و تاریخی استقامت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم کی 16 ماہ سے جاری نسل کشی و جارحیت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں استقامتی محاذ کی شرائط پر جنگ بندی ممکن ہوئی۔ انہوں نے ان تمام کامیابیوں پر فلسطینی مقاومتی رہنماوں کو مبارک باد پیش کی۔
  سید عباس عراقچی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، قبضے کے خاتمے اور اپنے جائز حقوق کے حصول کے لئے جاری فلسطینی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ دوسری جانب حماس کے رہنماوں نے فلسطین کی حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے ایرانی قیادت، حکومت و عوام کو گرمجوش سلام ارسال کیا۔ اس دوران انہوں نے جنگ بندی کے بعد غزہ و مغربی کنارے کی تازہ ترین سیاسی و زمینی صورت حال کی تفصیلات بیان کیں۔ حماس کے قائدین نے وحشیانہ قتل و غارت گری کے باوجود غزہ کی تاریخی فتح کو فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سربراہی میں استقامتی محاذ کی حمایت کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ فتح کے بعد فلسطین و خطے میں مقاومت کی صورت حال بہت بہتر ہے۔ اس ملاقات میں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ غزہ میں مشکل انسانی حالات پر قابو پانے اور جنگی تباہی کی تعمیر نو کے لیے عالمی برادری و اسلامی ممالک کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران سید عباس عراقچی کی حمایت انہوں نے

پڑھیں:

امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا

امریکا اور اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات سے اپنی اپنی مذاکراتی ٹیمیں واپس بلا لی ہیں۔

یہ فیصلہ حماس کی جانب سے پیش کیے گئے تازہ مؤقف کے بعد کیا گیا ہے، جسے امریکا نے ’جنگ بندی کی طرف سنجیدگی کی کمی‘ قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کی 60 روزہ جنگ بندی تجویز پر حماس کا جواب سامنے آگیا

امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ وہ قطر میں جاری جنگ بندی مذاکرات کو قبل از وقت ختم کر رہے ہیں، کیونکہ حماس کی حالیہ تجاویز سے واضح ہوتا ہے کہ گروپ امن کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

اس بیان کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے بھی تصدیق کی کہ اسرائیل نے بھی قطر سے اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلا لی ہے۔

حماس نے امریکی مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گی۔

تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے ہم اس عمل میں رکاوٹیں دور کرنے اور مستقل جنگ بندی کے حصول کے لیے بات چیت جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔

تازہ تجاویز کیا تھیں؟

جمعرات کو حماس نے قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی سے پیش کی گئی جنگ بندی کی نئی تجویز کا جواب دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے تصدیق کی کہ انہیں جواب موصول ہوا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تاہم تجاویز کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ

الجزیرہ کے مطابق مجوزہ معاہدے میں 60 روزہ جنگ بندی، حماس کی جانب سے 10 زندہ یرغمالیوں اور 18 کی باقیات کی رہائی، اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔ اس دوران امدادی سامان میں اضافہ اور مستقل جنگ بندی پر بات چیت کا بھی امکان ہے۔

تنازع کا مرکزی نقطہ

تازہ تعطل کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ فریقین مستقبل کے منظرنامے پر متفق نہیں ہو سکے۔ اسرائیل مسلسل کہتا آیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کی مکمل شکست تک فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا، جبکہ مبصرین اسے غیر حقیقی اور ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں۔

انسانی بحران شدت اختیار کر گیا

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ شدید قحط کی لپیٹ میں ہے۔

اسرائیلی محاصرے اور امداد پر پابندیوں کے باعث اب تک کم از کم 115 افراد غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اموات حالیہ ہفتوں میں ہوئیں۔

امریکا کی وضاحت

وٹکوف، جن کا پس منظر کاروباری ہے اور سفارت کاری کا کوئی باضابطہ تجربہ نہیں، نے کہا کہ ثالثوں نے بھرپور کوشش کی، لیکن حماس نہ متحد نظر آئی، نہ ہی نیک نیتی سے پیش آئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اب متبادل راستے تلاش کرے گا تاکہ یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے اور غزہ میں استحکام لایا جا سکے۔

عالمی ردعمل

اسرائیل کے غزہ پر حملے میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 59,587 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیل یہ جنگ حماس کے ایک حملے کے ردعمل میں جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس ہفتے ایک سو سے زائد بین الاقوامی امدادی اداروں نے اسرائیل پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی” اور ’منظم قحط پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کی فواد حسین کیساتھ گفتگو
  • ایرانی و قطری وزرائے خارجہ کی غزہ کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے فوری کارروائی پر تاکید
  • چین ہر قسم کی دہشت گردی پر کاری ضرب لگانے میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا،چینی وزیر خارجہ
  • جماعت اسلامی بلوچستان کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب چل پڑا
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • یورینیم کی افزودگی جاری رہیگی، استنبول مذاکرات کے تناظر میں سید عباس عراقچی کا بیان
  • اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
  • اسرائیل کی 60 روزہ جنگ بندی تجویز پر حماس کا جواب سامنے آگیا
  • ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کی درخواست منظور، خبر ایجنسی