مسافر طیارے اور ہیلی کاپٹرکا تصادم: ہم ہر اس قیمتی جان کے لیے غمزدہ ہیں جواچانک چھین لی گئی، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےوائٹ ہاؤس میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی سی ایریا کے رونلڈ ریگن ائیر پورٹ کے قریب ایک مسافر طیارے اور آرمی ہیلی کاپٹر کے ٹکرانے کے حادثے میں کوئی زندہ نہیں بچا ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ایک پریس بریفنگ میں اپنے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ایک قوم کے طور پر، ہم ہر اس قیمتی جان کے لیے غمزدہ ہیں جو اچانک ہم سے چھین لی گئی ہے۔” انہوں نے کہا کہ "افسوس کی بات ہے کہ حادثے میں کوئی زندہ نہیں بچا”۔
ٹرمپ نے کہا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ حادثے کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو ایس ملٹری اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس المناک حادثے کی وجویات کے بارے میں کہا "ہم پتہ چلا لیں گے کہ یہ تباہی کیسے ہوئی اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ایسا کچھ دوبارہ نہ ہو۔”
اس سے قبل امریکی حکام نے بھی کہا تھا کہ بدھ کی شب ایک مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان ہونے والے تصادم میں کسی فرد کے زندہ بچنے کا امکان نہیں رہا۔
a
No media source now available
کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو ہدایات کیوں نہیں دیں? صدر ٹرمپ کا سوشل میڈیا پر سوالاس سے قبل صدر نے مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان تصادم کو خوف ناک قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو احکامات کیوں نہیں دیے؟
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب حادثے کے کچھ دیر بعد صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ مسافر طیارہ ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے لیے اپنے درست روٹ پر تھا اور ہیلی کاپٹر سیدھا طیارے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
صدر ٹرمپ کے مطابق یہ بالکل کلیئر رات تھی اور طیارے کی لائٹس بھی جل رہی تھیں تو ہیلی کاپٹر اوپر یا نیچے یا دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا؟
واضح رہے کہ امریکی ریاست کنساس سے واشنگٹن ڈی سی آنے والا مسافر طیارہ بدھ کی شب تقریباً نو بجے رونلڈ ریگن ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے قبل ہیلی کاپٹر سے ٹکرا کر دریائے پوٹومک میں گر گیا تھا۔
طیارے میں عملے کے چار ارکان سمیت 64 افراد جب کہ ہیلی کاپٹر میں تین اہلکار سوار تھے۔
No media source now available
کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو ہدایات کیوں نہیں دیں? صدر ٹرمپ کا سوشل میڈیا پر سوالاس سے قبل سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ کنٹرول ٹاور کو ہیلی کاپٹر سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ اسے طیارہ نظر آ رہا ہے، یہ بتانا چاہیے تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت بری صورتِ حال ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔
حادثے کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق صدر ٹرمپ کو واشنگٹن طیارہ حادثے پر بریفنگ دی گئی ہے اور صدر خود صورتِ حال کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ملبے سے 28 لاشیں نکال لی گئیں۔جمعرات کی صبح ریگن نیشنل ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس میں واشنگٹن ڈی سی کے ایمر جینسی سروسز کے سربراہ جان ڈونیلی نے بتایا کہ حکام کو ہیلی کاپٹر اور جہاز کا ملبہ مل گیا ہے اور جہاز کے ملبے سے اب تک 27 لاشیں جب کہ ہیلی کاپٹر سے ایک شخص کی لاش نکالی جا چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کسی بھی شخص کے زندہ بچنے کے امکانات ختم ہونے کے بعد ریسکیو آپریشن، ریکوری آپریشن میں تبدیل ہو گیا ہے۔
حادثے کی وجوہات جاننے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے: وزیر ٹرانسپورٹ شون ڈفی
امریکہ کے وزیرِ ٹرانسپورٹ شون ڈفی نے کہا ہے کہ تمام وفاقی ادارے اور واشنگٹن ڈی سی کے مقامی حکام مل کر ریسکیو سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
جمعرات کی صبح ریگن نیشنل ایئرپورٹ پر میئر اور دیگر حکام کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں شون ڈفی نے کہا کہ حکام جہاز اور ہیلی کاپٹر کے تصادم کی وجوہات جاننے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تصادم کے وقت موسم صاف تھا اور پروازیں معمول کے مطابق آپریٹ کر رہی تھیں۔ ان کے بقول فوجی اور مسافر طیاروں کی ایک ہی وقت میں ایک ہی علاقے میں پرواز کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
کسی بھی شخص کے زندہ بچنے کے امکانات ختم ہونے کے بعد ریسکیو آپریشن، ریکوری آپریشن میں تبدیل ہو گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ اطلاعات اے پی سے لی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل مسافر طیارے اور انہوں نے کہا کہ ہیلی کاپٹر کے کنٹرول ٹاور ایئرپورٹ پر کیوں نہیں لی گئی
پڑھیں:
پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بھارتی نیوی،انٹیلیجنس ایجنسیز کے اہلکار اور سیاح شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ (TRF) نے قبول کی، جس نے دعویٰ کیا کہ حملے کا مقصد غیر مقامی افراد کی آبادکاری کے خلاف مزاحمت کرنا تھا، جسے وہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اس واقعہ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت جو جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک کے درمیان دفاعی توازن اور خصوصاً فضائی طاقت کے موازنے کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف زمینی اور بحری محاذوں پر بلکہ فضائی میدان میں بھی مسلسل ایک دوسرے سے برتری کی دوڑ میں شامل ہیں۔
پاکستان ایئر فورس (PAF) کی ریڑھ کی ہڈی JF-17 تھنڈر طیارے ہیں، جن کا جدید ترین ورژن JF-17 Block III ہے۔ یہ طیارے AESA ریڈار، جدید BVR میزائلز اور ڈیجیٹل ایویونکس سے لیس ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس چین کا J-10C جو ایک جدید 4.5+ جنریشن کا ملٹی رول فائٹر جیٹ ہے اور امریکی F-16 طیارے بھی موجود ہیں، جو ڈاگ فائٹنگ میں فضائی برتری کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی فضائیہ (IAF) کے پاس فرانس سے حاصل کردہ Rafale طیارے موجود ہیں، جو Meteor بی وی آر میزائل، SCALP کروز میزائل اور جدید الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز سے لیس ہیں۔اور اس کے علاوہ بھارت کے پاس Su-30MKI کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ مقامی سطح پر تیار کردہ Tejas LCA بھی بھارتی فضائیہ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یہ طیارے ابھی تک مکمل آپریشنل سطح پر دنیا کی بڑی فضائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔
بھارت کے پاس تقریباً 600 سے زائد فائٹر جیٹس موجود ہیں جبکہ پاکستان کے پاس یہ تعداد 350 کے لگ بھگ ہےلیکن جب بات آتی ہے آپریشنل ایفی شینسی (operational efficiency) اور فوری فیصلوں کی اہلیت (decision-making agility) کی، تب پاکستان کو JF-17 جیسے cost-effective اور highly integrated پلیٹ فارمز کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔
پاکستانی فضائیہ کی دفاعی حکمت عملی، تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت اسے کم تعداد میں بھی ایک بہترین فضائیہ بناتی ہے۔ بالاکوٹ واقعہ اس کی واضح مثال ہے جہاں پاکستان نے بھارتی MiG-21 طیارہ مار گرایا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ صرف ہتھیاروں کی تعداد نہیں، بلکہ تربیت، تجربہ اور فوری ردعمل کی صلاحیت بھی فیصلہ کن ہوتی ہے۔
بھارتی فضائیہ کے پاس ٹیکنیکل تنوع، بڑی تعداد اور زیادہ فنڈنگ کے فوائد تو ہیں لیکن سسٹمز کے انضمام میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس کم وسائل کے باوجود مربوط منصوبہ بندی، ہم آہنگ ٹیکنالوجی اور متحرک کمانڈ سسٹمز ہیں جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل کی صلاحیت رکھتے ہیں جدید فضائی جنگ صرف طاقت یا تعداد کا نام نہیں ہے بلکہ اسٹریٹیجک برتری، تیز اور درست فیصلے اور مؤثر تربیت ہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی فضائیہ کو برتری دلواتے ہیں اور اس میدان میں پاکستان بھارت پر سبقت رکھتا ہے۔