شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی خاطر اس کام کی ذمہ داری اسی خطے کے قابل اعتماد اتحادیوں کو سونپ دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر امریکہ کے فوجی اور مالی اخراجات میں کمی لانا ہے۔ یوں امریکہ دنیا بھر میں بالواسطہ تسلط قائم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ نے ماضی میں مشرق وسطی میں ایسی پالیسی ابھی تک نہیں آزمائی۔ 1960ء کے عشرے میں جب ویت نام جنگ کے باعث امریکہ کو بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس وقت کے امریکی صدر نیکسن نے سابق سوویت یونین کے زیر اثر ممالک جیسے عراق، شام اور مصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلوی سلطنت کے حامل ایران اور سعودی عرب کو چنا۔ لہذا ایران اور سعودی عرب خطے میں امریکی خارجہ سیاست کے دو ستون جانے جاتے تھے۔
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک ستون گر گیا۔ اس کے بعد کارٹر نے خلیج فارس میں ریپڈ ری ایکشن فورس بھیج کر مشرق وسطی میں امریکی خارجہ سیاست کا نیا باب کھول دیا۔ اس وقت امریکی رائے عامل بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی وسیع فوجی موجودگی کے شدید خلاف ہے جس کی بنیادی وجہ 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی ناکام فوجی چڑھائی اور اس میں خرچ ہونے والے لاحاصل کھربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ لہذا امریکہ نے مشرق وسطی خطے میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی ذمہ داری اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور سیاسی، فوجی اور اقتصادی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ تل ابیب تزویراتی گہرائی کے فقدان کا شکار ہے اور اب اس امریکی پالیسی کے تحت وہ اپنا وجود شام، لبنان اور مغربی کنارے تک پھیلانا چاہتا ہے۔
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد اسرائیل نے اس عرب ملک پر فوجی چڑھائی کر دی اور اب وہ شام کے وسیع علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار کر چکا ہے۔ مجدل الشمس اور جبل الشیخ کی چوٹیوں پر قبضے سے شام کا دارالحکومت دمشق بھی اسرائیلی توپ خانے کی زد میں آ چکا ہے جو ان دنوں الجولانی کے نام سے معروف احمد الشرع کے زیر تسلط ہے۔ شام میں جیسے ہی بشار اسد کی حکومت ختم ہوئی تو امریکہ نے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد 900 سے بڑھا کر 2000 کر دی۔ پینٹاگون نے اپنے بیانیے میں دعوی کیا تھا کہ شام میں مزید فوجیوں کی موجودگی کا مقصد داعش کے دوبارہ سرگرم ہو جانے کو روکنا اور صوبہ حسکہ میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد باشندوں اور گروہوں کی مدد کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔
ترکی نے شام میں جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کا مقصد ترک مخالف کرد گروہ پی کے کے کو کچلنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترکی نے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف شام کی نئی حکومت سے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی مصروف ہے۔ 2017ء میں آستانہ مذاکرات کے بعد ھیئت تحریر الشام ترکی کی زیر سرپرستی آ گیا تھا اور اس وقت دمشق کے اعلی سطحی سیاسی اور فوجی رہنماوں کے ساتھ ترکی کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔ یہ علاقہ جو آج شام کہلاتا ہے، 1516ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے اور انقرہ کے ہمیشہ سے خاص طور پر حلب شہر کے ذریعے شام سے مستحکم اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ شام کی موجودہ حکومت زرمبادلہ ذخائر کی شدید قلت، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور تیل کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔
پہلی نظر میں علاقائی کھلاڑیوں پر انحصار کی نئی امریکی پالیسی شاید فوجی اخراجات میں کمی کا باعث بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقائی کھلاڑیوں کے مفادات میں باہمی تضاد اور ٹکراو پایا جاتا ہے جس کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کو سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں شدید دھچکہ پہنچے گا۔ صیہونی اسٹریٹجک ماہر آوے میلامد اس بارے میں لکھتا ہے: "علاقائی اتحاد میں تل ابیب کا کردار بہت اہم ہے اور اسے اسلامی مزاحمتی محاذ اور اخوان المسلمین سے خطرہ ہے۔ اسرائیل سے سازباز کرنے والے عرب ممالک اسرائیل کو ایک مستحکم، قیمتی اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل خلیج فارس، افریقی شاخ، بحیرہ احمر اور بحیرہ روم میں ترکی اور ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح نئے مشرق وسطی کا زمینہ فراہم ہو سکے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم کی فوجی موجودگی میں امریکہ کی ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی امریکہ کے پر امریکہ فوجی اور یہ ہے کہ کر دے گا پر فوجی ہے اور اور اس کے بعد شام کی
پڑھیں:
چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
ایک دہائی کے دوران جب نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نفرت و جنگ پہ مبنی نظریات نے بھارت کو اپنی گرفت میں لے لیا، دنیا کے دوسرے حصوں میں معاملات مختلف رہے۔
2015ء میں، چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے غیر ملکی ٹیکنالوجی پر چین کا انحصار کم کرنے اور چین کو کم لاگت والے مینوفیکچر سے براہ راست مدمقابل اعلی ترین معیشتوں… جرمنی، تائیوان، جاپان، کوریا اور امریکہ جیسا بنانے کے لیے دس سالہ اقدام کا اعلان کیا تھا۔
اس پلان کو’’میڈ ان چائنا 2025‘‘ کا نام دیا گیا۔اس منصوبے کے ذریعے سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، کمرشل ہوائی جہاز، ڈرون، تیز رفتار ریل، الیکٹرک گاڑیاں اور بیٹریاں، جدید جہاز اور شمسی پینل جیسے شعبوں کی نشاندہی ہوئی جن میں ترقی کرنا لازم تھا۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق چینی قوم نے ان شعبوں کو مزید ’’پیچھے‘‘(behind)، ’’مسابقتی‘‘ اور ’’عالمی رہنما‘‘ میں تقسیم کر دیا۔ امریکی تحقیقی ویب سائٹ ،بلومبرگ کے مطابق 2015ء میں چینی زیادہ تر شعبوں میں ’’پیچھے‘‘ تھے، دو (تیز رفتار ریل، بیٹریوں) میں مسابقتی اور سولر پینلز میں لیڈر تھے۔نیا منصوبہ بنانے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ چین ان تمام صنعتوں میں یا تو’’لیڈر‘‘ جائے یا خوب مسابقت کرے۔
اس منصوبے کے اعلان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید ناراض کر دیا۔ خاص طور پر امریکہ کسی دوسری قوم کو کسی بھی چیز میں 'عالمی رہنما' بننے دیکھنے کا عادی نہیں کیونکہ وہ دنیا پراپنا غلبہ خدا کا دیا ہوا حق سمجھتا ہے۔
امریکہ کے اس وقت کے صدر براک اوباما کو بھی چین کے عروج سے خطرہ محسوس ہوا جس کی آج معیشت امریکی اکانومی کے مقابلے میں تقریباً دو تہائی ہو چکی اور امکان ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں اس کے برابر ہوجائے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے2017ء میں اوباما کی جگہ لی تو چین کے خلاف ٹیرف لگا دیے۔ اگلے سال چین کی دیوہیکل کمپنی،ہواوے امریکی پابندیوں کی زد میں آگئی۔صدر بائیڈن کے دور میں امریکہ نے چین کو اعلیٰ درجے کی کمپیوٹر چپس کی فروخت پر پابندی لگا دی۔
یہ تمام اقدامات چین کے مزید عروج کو روکنے کے لیے کیے گئے اور اقتصادی شراکت داری جس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچا تھا، ٹوٹنا شروع ہو گئی۔ ٹرمپ نے دوسرے دور حکومت میں چین پر مذید ٹیرف لگا کر ان کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ یعنی ۴۵ فیصد تک پہنچا دی۔ یہ قدم امریکہ میں مہنگائی بڑھنے کا خطرہ مول لے کر صرف اسی لیے اٹھایا گیا کہ چین کے عروج کو روکا جا سکے۔ چین کو شکست دینے کی خاطر ٹرمپ نے امریکی عوام پر مہنگائی کا بار ڈال دیا۔گو بعد ازاں ٹیرف لگانے کا عمل منجمند کر دیا گیا مگر ان کے نافذ ہونے کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
اگرچہ چین نے ابتدائی اعلان کے بعد ’’میڈ اِن چائنا 2025‘‘کی تشہیر نہیں کی لیکن منصوبے پر عمل درآمد جاری رہا۔اس سال چین اپنا ہدف حاصل کرلے گا یعنی تمام شناخت شدہ شعبوں میں مسابقتی بننا اور ان میں سے نصف میں عالمی رہنما بننے میں کامیابی پانا۔مثال کے طور پرسرکاری کمپنی، کمرشل ایئر کرافٹ کارپوریشن آف چائنا (Comac) نے حال ہی میں سی 919طیارہ تیار کیا ہے جوعالمی مارکیٹ میں غیر ملکی فرموں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے خود کو پوزیشن میں رکھتے ہوئے خصوصیات میں امریکی ایئربس 320 اور بوئنگ 737 کے ہم پلہ ہے۔چینی کمرشل طیارے مختلف ایئر لائنز استعمال کر رہی ہیں۔
جنوری 2025ء میں ڈیپ سیک نے دنیا کے سامنے چین کی بڑھتی اے ائی صلاحیتوں کا انکشاف کیا۔ امریکی سلیکون ویلی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بحرالکاہل کے پار کی کوئی کمپنی اس کی برابری کر سکتی ہے۔اس وقت مصنوعی جنرل انٹیلی جنس تیار کرنے کی دوڑ میں صرف دو ہی سنجیدہ دعویدار ہیں : امریکہ اور چین۔ یورپ اور باقی دنیا اس منظر پر کہیں نہیں۔
ایکسپورٹ کنٹرولز کا سامنا کرنے کے باوجود ہواوے اب چپیں بنا رہا ہے جو تائیوان میں بنتی چپوں کے مقابلے میں کم ایڈوانس ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ’’جدید ترین‘‘ نہ ہوں لیکن وہ گھریلو ہیں اور جیسا کہ ڈیپ سیک نے دکھایا ، چینی ٹیلنٹ کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھا سکتا ہے۔
چین طیارہ بردار بحری جہاز بنانے لگا ہے ۔ سب سے بڑا 2022ء میں تعینات کیا گیا تھا۔ ایل ای جی کیریئرز بھی بن رہے۔ حالیہ جنوری میں چین نے دنیا کے جدید ترین جنگی طیاروں کی تیاری کے کام کا آغاز کیا۔ اورجب بات الیکٹرک کاروں، تیز رفتار ریل، سولر پینلز، بیٹریوں اور ڈرون کی ہو تو چین کا کوئی حریف نہیں۔ یہ الیکٹرک کاروں کا دنیا میں سب سے بڑا پروڈیوسر، صارف اور برآمد کنندہ ہے۔
یہ دنیا کے سولر پینلز کا 80 فیصد، دنیا کی لیتھیم آئن بیٹریوں کا 75 فیصد ( چینی کمپنی، سی اے ٹی ایل، عالمی مارکیٹ کا ایک تہائی کنٹرول کرتی ہے) اور دنیا کے 75 فیصد ڈرون (دوبارہ ایک کمپنی ڈی جے آئی عالمی مارکیٹ کا اہم حصہ کنٹرول کرتی ہے) بناتا ہے۔چالیس ہزار کلومیٹر پر مشتمل دنیا کے تیز رفتار ریل نیٹ ورک کا دو تہائی حصہ چین میں ہے اور بڑھ رہا ہے۔
پچھلے بیس سال سے مغرب، خاص طور پر امریکہ چین کی ترقی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اب یا تب چین کا معاشی زوال شروع ہو جائے گا۔ مگر چینی قوم نے مغرب کے تمام اندازے غلط ثابت کر دکھائے۔
سچ یہ ہے کہ سورج مغرب پر غروب ہو رہا ہے ، چاہے ڈونلڈ ٹرمپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔امریکی دنیا کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ پھر بھی وہ دوسروں کے عروج پر ناراض ہیں۔ اور عالمی معیشت میں ان کا اصل ہدف چین بن چکا ہے۔عالمی معیشت میں امریکہ اور یورپ کا مشترکہ حصہ بیسویں صدی کے آغاز میں 50 فیصد سے تجاوز کر گیا تھا اور یہ صورت حال 2009ء تک برقرار رہی جب وہ 51 فیصد تک پہنچ گیا۔
اسی سال سے اگرچہ اس میں کمی آرہی ہے۔ یہ پچھلے سال 43 فیصد تھا اور اس میں مزید کمی آئے گی۔ یورپ معاشی طور پر جمود کا شکار ہے۔ یورپی یونین کے مشترکہ جی ڈی پی میں گزشتہ سال میں 1 فیصد سے کم اور اس سے پہلے سال 2023ء میں 1 فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔ یہ اس سال 1 فیصد کی شرح سے بڑھ سکتا ہے، لیکن زیادہ ترقی کے کوئی طویل مدتی امکانات موجود نہیں۔
برطانیہ کا جی ڈی پی 2023 اور 2024ء میں 1 فیصد سے کم رہا۔اس سال 1 فیصد کی شرح سے ترقی کر سکتا ہے۔امریکہ نے پچھلے سال 2 فیصد کی شرح سے ترقی کی تھی اور رواں سال اسے کساد بازاری کا سامنا ہے، یعنی اس کی معیشت میں سکڑاؤ آ رہا۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لوگ مل کر دنیا کی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ یعنی 2009ء تک دنیا کی 90 فیصد ا?بادی کا عالمی معیشت میں حصہ’’مغرب‘‘ سے کہیں کم تھا۔
لیکن یہ منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور باقی دنیا کے لیے تبدیلی کا چیمپئن یقیناً چین ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 1990ء میں 1 فیصد، 2000ء میں 3 فیصد اور 2010ء میں 9 فیصد تھا۔ آج یہ 17فیصد ہو چکا۔ بھارت کا حصہ وہی تھا جو 1990ء میں چین کا تھا۔ آج یہ 6اعشاریہ 3 فیصد ہے۔
بھارت نے معقول حد تک اچھا کام کیا ہے لیکن گزشتہ تیس سالوں سے عالمی ترقی کا اصل انجن اس کا پڑوسی رہا ہے۔ چین کے شاندار اور تیزی سے عروج نے ’’مغرب‘‘ میں اضطراب پیدا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا پر اس کا مکمل غلبہ پھسلنا شروع ہو گیا ہے۔
افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر مغربی میڈیا کے مسلسل حملے اس امر کو ظاہر کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا گزشتہ بیس برس سے یہ سالانہ رپورٹیں دے رہا ہے کہ چین کی اقتصادی کامیابی جلد ختم ہونے والی ہے۔
پریشانیاں یورپی سیاست اور امریکہ میں بھی اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے امریکہ کی محبت بنیادی طور پر دو مسائل پر مبنی ہے۔ ایک غیر سفید فام ممالک سے امیگریشن روکنا اور پہلے سے امریکہ میں موجود لوگوں کو ملک بدر کرنا۔ اور دوسری یہ خواہش کہ امریکہ کو سامان برآمد کرنے والی غریب قوموں کا تیاپانچہ کرنا تاکہ وہ سپرپاور کے مدمقابل نہیں آ سکیں۔
امریکیوں کا فی کس جی ڈی پی ہے میکسیکنوں سے چھ گنا اور کینیڈینوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے… پھر بھی وہ پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ اس سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق امریکی فی کس جی ڈی پی 90 ہزار ڈالر سے کم رہنے کا امکان ہے مگر یہ بھارت(2480 ڈالر ) اور پاکستان (1600ڈالر ) کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ میں روزگاردستیاب ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی جو نوکری چاہتا ہے، وہ روزگار تلاش کر سکتا ہے۔ غرض ہر ممکن طریقے سے امریکی دنیا کے سب سے کامیاب اور سب سے زیادہ مراعات یافتہ لوگوں میں سے ہیں … اور پھر بھی وہ دوسروں کے عروج پر ناراض ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے، ٹرمپ کی تجارتی جنگ امریکہ کو چین سے سات گنا زیادہ مہنگی پڑے گی۔
اس تجارتی جنگ سے چین کی کل جی ڈی پی میں صرف صفر اعشاریہ ایک فیصد کمی آئے گی۔ لیکن یہ امریکی معیشت میں صفر اعشاریہ 27 فیصد کمی لا سکتی ہے۔ٹرمپ وہ ملازمتیں امریکہ میں لانا چاہتے ہیں جو چینی کر رہے ہیں، خاص طور پر مینوفیکچرنگ میں نوکریاں۔
1990ء میں امریکی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا حصہ 16 فیصد تھا، آج یہ 10 فیصد رہ گیا ہے۔ مینوفیکچرنگ کی پیداوار 1990ء میں تقریباً 1 ٹریلین امریکی ڈالر مالیت کی تھی جوا?ج بڑھ کر 3ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی۔ لہذا مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہوا، لیکن باقی معیشت کے مقابلے میں سست رفتاری سے مینوفیکچرنگ میں ملازمتیں بھی تقریباً ایک کروڑ اسی لاکھ سے کم ہو کر ایک کروڑ بارہ لاکھ رہ گئیں۔
دوسری طرف چین کی مینوفیکچرنگ 2024ء میں چار ٹریلین ایک سو ساٹھ ارب ڈالر رہی جو عالمی طور پر 26 فیصد حصہ بنتی ہے۔ اس نے امریکہ، جرمنی اور بھارت کی مشترکہ مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کو شکست دے ڈالی۔ چین کو یہ کامیابی بے مثال پیداواراور بہترین سپلائی چینز کے ذریعے ملی۔ آج مینوفیکچرنگ جنگی صلاحیت کی بنیاد بن چکی۔
درج بالا حقائق سے افشا ہے، آج امریکہ کے مینوفیکچرنگ شعبے میں کم امریکی کارکنان 1990ء میں پیدا ہونے والی پیداوار سے تین گنا زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ یقیناً اس کی وجہ آٹومیشن اور عمدہ کارکردگی ہے۔ امریکہ آج تقریباً اتنی ہی مقدار میں سٹیل پیدا کرتا ہے جتناکہ 1990ء میں بناتا تھا یعنی تقریباً 80 ملین ٹن۔ تاہم سٹیل پلانٹس میں ملازمت پر رکھے گئے امریکیوں کی تعداد 1980ء میں پانچ لاکھ بارہ ہزار تھی جو 1990ء میں دو لاکھ ستر ہزار رہ گئی اور اب ستر ہزار ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں مینوفیکچرنگ ملازمتیں جنم لیں۔ مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ فیکٹریوں میں دیگر شعبوں سے امریکی ملازمین کو لا کر ملازمت دی جائے گی۔گویا لوگوں کو زیادہ پیداواری کام کرنے سے کم پیداواری کام کی طرف منتقل کیا جائے گا۔اس تبدیلی سے امریکہ کی معاشی ترقی میں کمی آسکتی ہے۔ٹرمپ مگر اپنی متنازع پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کی ٹیرف لگانے کی پالیسی نے تمام مسابقت کو روک دیا ہے۔ مثال کے طور پر اب چینی الیکٹرک کاروں کو امریکہ میں درآمد کرنے پر 100 فیصد ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا، یعنی ان کی قیمت دوگنی ہو جائے گی۔ اگر کوئی امریکی یہ ٹیکس ادا کرتا ہے تو وہ چینی کار سافٹ ویئر پر پابندی کی وجہ سے اب بھی اپنی چینی کار نہیں چلا سکے گا۔
امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ کاروں میں کیمرے، مائیکروفون، جی پی ایس ٹریکنگ اور دیگر ٹیکنالوجیز انٹرنیٹ سے منسلک ہوتی ہیں اور چین جن کا غیرقانونی استعمال کر سکتا ہے۔لہذا بقول امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ کے چینی سافٹ وئیرز کے استعمال پر پابندی لگا کر امریکی قومی سلامتی اور امریکیوں کی رازداری کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم اٹھایا گیاتاکہ غیر ملکی مخالفین کو حساس یا ذاتی معلومات تک رسائی کے لیے یہ ٹیکنالوجیز استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پابندی کا مقصد امریکی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور چینی کمپنیوں کو ترقی کرنے سے روکنا ہے۔
ٹرمپ کے عائد کردہ یونیورسل ٹیرف سے چین سمیت پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔حتی کہ ان کی وجہ سے یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں امریکی اتحادی بھی حیران ہیں کہ وہ خود کو امریکا کا شراکت دار سمجھتے تھے۔ دراصل چین اور باقی دنیا کے عروج سے خوف کھا کر امریکہ نے ٹیرفوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اپنی نئی فکر وعمل کے بل بوتے پر ترقی یافتہ معیشت بن گیا جبکہ بھارت نفرت انگیز نظریات کے باعث اتنی ترقی نہیں کر سکا جتنی اسے کرنا چاہیے تھی۔ پچھلی دہائی کے دوران بھی دونوں ’’ایشیائی ٹائیگرز‘‘ کی سیاست اور ترقی میں بہت فرق رہا ہے
1990ء میں اقتصادی طور پر بھارت اور چین برابر تھے۔ آج چین کی معیشت بھارت کی معیشت سے چھ گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔لی کی چیانگ 2023ء میں چل بسے تھے۔ امید ہے، وہ اس احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے ہوں گے کہ ان کا وطن ہر لحاظ سے ایک سپرپاور بننے کی راہ پر گامزن ہو چکا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات کیا امریکہ کا زوال روک سکیں گے؟اور خاص طور پہ کیا دنیا پر اس کا غلبہ پہلے کی طرح برقرار رہے گا؟ظاہر ہے ، ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔چین ، روس، بھارت اور افریقہ و لاطینی امریکہ ترقی کرتے رہیں گے۔ امریکہ اور یورپ کا غلبہ اور ان کا اثر و رسوخ کم ہوتا رہے گا کیونکہ وہ دوسروں کو اپنے اقتدار میں شریک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ’مغرب‘ جو 100 سال پہلے کر سکتا تھا، اب نہیں کر سکتا۔ ہم انسانی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے۔n
چین ٹیرف پر پیچھے کیوں نہیں ہٹ رہا ؟
یہ سوال کہ بیجنگ ٹیرف پر ڈونلڈ ٹرمپ کی چھیڑی جنگ میں کیوں پسپائی اختیار نہیں کر رہا، اس کا جواب یہ ہے کہ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ۔
چین کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ بدمعاش حکومت کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں …انھوں نے بار بار ٹرمپ انتظامیہ کو یہ لیبل لگایا ہے ۔لیکن چین میں زمین پر کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امریکہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
ٹیرف کی جنگ شروع ہونے سے پہلے چین امریکہ کو اپنی کثیر اشیا فروخت کرتا تھا لیکن اسے نئی صورت حال میں سیاق و سباق سے دیکھیں تو یہ حصہ اس کے جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد بنتا ہے۔
حکومت چین نے کہا کہ وہ واضح طور پر ایسے وقت امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ لڑنے کو ترجیح نہیں دے گی جب وہ کئی برسوں کے رئیل اسٹیٹ بحران، حد سے زیادہ علاقائی قرضوں اور نوجوانوں کی مسلسل بے روزگاری کے بعد اپنے کافی معاشی سر درد دور کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
اس کے باوجود حکومت نے اپنے چینی عوام سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی مضبوط پوزیشن میں ہے۔چین یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے اپنے ٹیرف واضح طور پر امریکی برآمد کنندگان کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ٹرمپ اپنے حامیوں کے سامنے شیخی بگھارتے رہے ہیں کہ صرف ٹیرف لگا کر چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا آسان ہوگا، لیکن یہ دعوی انتہائی حد تک گمراہ کن ثابت ہوا ہے۔بیجنگ ہتھیار ڈالنے والا نہیں ہے۔
چین کے رہنما شی جن پنگ نے دورے پر آئے ہوئے ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز سے کہا کہ ان کے ملک اور یورپی یونین کو ٹرمپ انتظامیہ کی یکطرفہ غنڈہ گردی کے خلاف مشترکہ طور پر مزاحمت کرنی چاہیے۔سانچیز نے جواب میں کہا کہ امریکہ کے ساتھ چین کی تجارتی کشیدگی یورپ کے ساتھ اس کے تعاون میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔
ان کی ملاقات چین کے دارالحکومت بیجنگ میں امریکہ کی جانب سے اشیا پر محصولات میں دوبارہ اضافہ کرنے سے چند گھنٹوں قبل ہوئی تھی … حالانکہ چین نے کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی حکومت کی جانب سے ٹیرف میں مزید اضافے کا جواب نہیں دے گا۔
اگلے ہفتے چینی صدر شی نے ملائیشیا، ویتنام اور کمبوڈیا کا دورہ کیا اور ان ملکوں کے ساتھ معاشی تعلق مضبوط بنایا۔ یہ وہ تمام ممالک ہیں جو ٹرمپ کے محصولات سے سخت متاثر ہوئے ہیں۔چین کے وزرا جنوبی افریقہ، سعودی عرب اور بھارت کے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور اس دوران زیادہ تجارتی تعاون پر بات ہوئی۔
اس کے علاوہ چین اور یورپی یونین مبینہ طور پر چینی کاروں پر یورپی محصولات ممکنہ طور پر ہٹانے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں، جس کی جگہ کم از کم قیمت لگائی جائے گی تاکہ ڈمپنگ کے نئے دور پر لگام لگائی جا سکے۔
مختصر یہ کہ آپ جہاں بھی دیکھیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چین کے پاس آپشنز موجود ہیں۔اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ دو سپر پاورز کی طرف سے باہمی ٹیرف میں اضافہ اب تقریباً بے معنی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے درمیان تجارت کا زیادہ تر حصہ کم کرنے کے مقام سے گزر چکے ۔لہٰذا دونوں ممالک کے مابین اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ تقریباً بے معنی ہو گیا تھا۔اسی لیے صدر ٹرمپ نے تنگ آ کر معاملہ منجمند کر دیا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے گزشتہ دنوں کے دوران سوشل میڈیا پر چیئرمین ماوزے تنگ کی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں کوریائی جنگ کے دوران ایک کلپ بھی شامل ہے ۔تب جب انہوں نے امریکہ سے کہا تھا "چاہے یہ جنگ کتنی ہی دیر تک چلے، ہم کبھی سر نہیں جھکائیں گے"۔
اس کے اوپر ماؤ ننگ نے اپنا تبصرہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: "ہم چینی ہیں، ہم اشتعال انگیزی سے نہیں ڈرتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"
یہ یاد رہے، جب چین کی حکومت چیئرمین ماو کا حوالہ دیتی ہے تو سمجھ جائیے کہ وہ بہت سنجیدہ ہو رہی ہے۔