Islam Times:
2025-11-03@09:58:51 GMT

شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی خاطر اس کام کی ذمہ داری اسی خطے کے قابل اعتماد اتحادیوں کو سونپ دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر امریکہ کے فوجی اور مالی اخراجات میں کمی لانا ہے۔ یوں امریکہ دنیا بھر میں بالواسطہ تسلط قائم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ نے ماضی میں مشرق وسطی میں ایسی پالیسی ابھی تک نہیں آزمائی۔ 1960ء کے عشرے میں جب ویت نام جنگ کے باعث امریکہ کو بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس وقت کے امریکی صدر نیکسن نے سابق سوویت یونین کے زیر اثر ممالک جیسے عراق، شام اور مصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلوی سلطنت کے حامل ایران اور سعودی عرب کو چنا۔ لہذا ایران اور سعودی عرب خطے میں امریکی خارجہ سیاست کے دو ستون جانے جاتے تھے۔
 
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک ستون گر گیا۔ اس کے بعد کارٹر نے خلیج فارس میں ریپڈ ری ایکشن فورس بھیج کر مشرق وسطی میں امریکی خارجہ سیاست کا نیا باب کھول دیا۔ اس وقت امریکی رائے عامل بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی وسیع فوجی موجودگی کے شدید خلاف ہے جس کی بنیادی وجہ 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی ناکام فوجی چڑھائی اور اس میں خرچ ہونے والے لاحاصل کھربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ لہذا امریکہ نے مشرق وسطی خطے میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی ذمہ داری اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور سیاسی، فوجی اور اقتصادی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ تل ابیب تزویراتی گہرائی کے فقدان کا شکار ہے اور اب اس امریکی پالیسی کے تحت وہ اپنا وجود شام، لبنان اور مغربی کنارے تک پھیلانا چاہتا ہے۔
 
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد اسرائیل نے اس عرب ملک پر فوجی چڑھائی کر دی اور اب وہ شام کے وسیع علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار کر چکا ہے۔ مجدل الشمس اور جبل الشیخ کی چوٹیوں پر قبضے سے شام کا دارالحکومت دمشق بھی اسرائیلی توپ خانے کی زد میں آ چکا ہے جو ان دنوں الجولانی کے نام سے معروف احمد الشرع کے زیر تسلط ہے۔ شام میں جیسے ہی بشار اسد کی حکومت ختم ہوئی تو امریکہ نے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد 900 سے بڑھا کر 2000 کر دی۔ پینٹاگون نے اپنے بیانیے میں دعوی کیا تھا کہ شام میں مزید فوجیوں کی موجودگی کا مقصد داعش کے دوبارہ سرگرم ہو جانے کو روکنا اور صوبہ حسکہ میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد باشندوں اور گروہوں کی مدد کرنا ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔
 
ترکی نے شام میں جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کا مقصد ترک مخالف کرد گروہ پی کے کے کو کچلنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترکی نے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف شام کی نئی حکومت سے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی مصروف ہے۔ 2017ء میں آستانہ مذاکرات کے بعد ھیئت تحریر الشام ترکی کی زیر سرپرستی آ گیا تھا اور اس وقت دمشق کے اعلی سطحی سیاسی اور فوجی رہنماوں کے ساتھ ترکی کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔ یہ علاقہ جو آج شام کہلاتا ہے، 1516ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے اور انقرہ کے ہمیشہ سے خاص طور پر حلب شہر کے ذریعے شام سے مستحکم اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ شام کی موجودہ حکومت زرمبادلہ ذخائر کی شدید قلت، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور تیل کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔
 
پہلی نظر میں علاقائی کھلاڑیوں پر انحصار کی نئی امریکی پالیسی شاید فوجی اخراجات میں کمی کا باعث بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقائی کھلاڑیوں کے مفادات میں باہمی تضاد اور ٹکراو پایا جاتا ہے جس کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کو سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں شدید دھچکہ پہنچے گا۔ صیہونی اسٹریٹجک ماہر آوے میلامد اس بارے میں لکھتا ہے: "علاقائی اتحاد میں تل ابیب کا کردار بہت اہم ہے اور اسے اسلامی مزاحمتی محاذ اور اخوان المسلمین سے خطرہ ہے۔ اسرائیل سے سازباز کرنے والے عرب ممالک اسرائیل کو ایک مستحکم، قیمتی اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل خلیج فارس، افریقی شاخ، بحیرہ احمر اور بحیرہ روم میں ترکی اور ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح نئے مشرق وسطی کا زمینہ فراہم ہو سکے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم کی فوجی موجودگی میں امریکہ کی ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی امریکہ کے پر امریکہ فوجی اور یہ ہے کہ کر دے گا پر فوجی ہے اور اور اس کے بعد شام کی

پڑھیں:

عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم

عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

واشنگٹن (آئی پی ایس) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے پینٹاگون کو نائیجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کرنے کا حکم دیا ہے، وہ بار بار اس ملک پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ عیسائیوں کے خلاف تشدد روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہا، تاہم نائیجیریا نے بارہا یہ الزام مسترد کیا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈٰیا پیغام میں، ٹرمپ نے نائیجیریا میں عیسائی برادری کے خلاف ہونے والے ’قتلِ عام‘ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ امریکا ’فوری طور پر نائیجیریا کو دی جانے والی تمام امداد اور تعاون بند کر دے گا، اور وہاں کی حکومت کو ’تیزی سے حرکت کرنے‘ کی وارننگ دی۔
اس طویل پیغام میں ٹرمپ نے کہا کہ بہت ممکن ہے کہ امریکا اب اس بدنام شدہ ملک (نائیجیریا) میں بھرپور ہتھیاروں کے ساتھ داخل ہو جائے، تاکہ اُن دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے جو یہ ہولناک مظالم انجام دے رہے ہیں۔
عیسائی برادری اور مسلمان، دونوں ہی اس ملک میں شدت پسند اسلام پسندوں کے حملوں کے شکار رہے ہیں، 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی والے ملک میں تشدد کے پیچھے مختلف عوامل ہیں، کچھ واقعات مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور دونوں گروہوں کو متاثر کرتے ہیں، جب کہ دیگر کا آغاز کاشت کاروں اور چرواہوں کے درمیان محدود وسائل پر تنازع، کمیونٹی اور نسلی کشیدگیوں سے ہوتا ہے۔

اگرچہ عیسائی برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے، مقامی رپورٹس بتاتی ہیں کہ زیادہ تر شکار نائیجیریا کے اکثراََ مسلم شمال میں رہنے والے مسلمان ہی ہیں۔
ٹرمپ نے لکھا کہ میں اپنے محکمہ جنگ کو ممکنہ کارروائی کی تیاری کرنے کا حکم دے رہا ہوں، اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، بے رحم اور مزے دار ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے دہشت گرد غنڈے ہمارے عزیز عیسائیوں پر حملہ کرتے ہیں! نائیجیر کی حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ تیزی سے حرکت کرے!

امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہِیگسیتھ نے ٹرمپ کے بیانات کی اسکرین شاٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر لکھا ’یس سر‘،
نائیجیریا (اور کہیں بھی) معصوم عیسائیوں کا قتل فوری طور پر ختم ہونا چاہیے، وار ڈپارٹمنٹ کارروائی کی تیاری کر رہا ہے، یا تو نائیجیریا کی حکومت عیسائیوں کی حفاظت کرے، یا ہم ان دہشت گردوں کو مار ڈالیں گے جو یہ ہولناک مظالم کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کا یہ اعلان جمعہ کو کیے گئے ایک ایسے الزام کے بعد آیا ہے، جس میں انہوں نے نائیجیریا پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا، اور کہا تھا کہ عیسائیت نائیجیریا میں وجودی خطرے کا سامنا کر رہی ہے اور اس ملک کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت ’خاص تشویش والا ملک‘ قرار دیا تھا۔
یہ لیبل اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نائیجیریا کی حکومت انتظامی، جاری، اور سنگین نوعیت کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے یا ان پر خاموش ہے۔
ہماری مخلصانہ کوششوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا، نائیجیریا
نائیجیریا کے صدر بولا ٹنوبو نے ایک سوشل میڈیا پیغام میں لکھا کہ نائیجیریا کو مذہبی طور پر عدم برداشت والا ملک قرار دینا ہماری قومی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا، نہ ہی اس میں حکومت کی مسلسل اور مخلصانہ کوششوں کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، جو تمام نائیجیریائیوں کی مذہب و عقائد کی آزادی کی حفاظت کے لیے کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نائیجیریا امریکی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کمیونیٹیزِ تمام مذاہب کے تحفظ پر سمجھ بوجھ اور تعاون کو گہرا کر رہا ہے۔

ٹنوبو کے پریس سیکریٹری نے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے اس سوشل میڈیا پیغام کے جواب میں جس میں ’ہزاروں عیسائیوں کے قتلِ عام‘ کی مذمت کی گئی تھی، اس بیانئے کو نائیجیریا کی صورتحال کی شدید مبالغہ آرائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عیسائی، مسلمان، چرچ اور مسجد سب کو بے ترتیب طور پر حملوں کا سامنا ہے۔

بایو اونانگا نے کہا کہ ہمارے ملک کو امریکا سے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے کچھ ریاستوں میں ان پرتشدد انتہا پسندوں سے لڑنے کے لیے فوجی مدد، ’خاص تشویش والے ملک‘ کا درجہ نہیں چاہیے۔

وائٹ ہاؤس اور ٹنوبو کے دفتر کے ترجمانوں نے فوراً تبصرے کے لیے درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنیوزی لینڈ کے سابق کپتان کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان بھارت سے آنے والی ہواؤں سے لاہور کی فضا انتہائی مضر صحت سابق وزیراعظم شاہد خاقان دل کی تکلیف کے باعث ہسپتال منتقل پشاور: سی ٹی ڈی تھانے میں شارٹ سرکٹ سے بارودی مواد پھٹ گیا، ایک اہلکار جاں بحق خیبرپختونخوا کابینہ ممبران کے محکموں کا باضابطہ اعلامیہ جاری،شفیع اللہ جان معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اعلیٰ عہدیدار اسرائیلی فوجی کی لاش تل ابیب کے سپرد کر دی گئی
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم
  • تل ابیب میں ایک اور صہیونی فوجی کی خود سوزی