لاس اینجلس میں خوفناک آگ پر3ہفتوں بعدقابو پالیاگیا، نقصانات کا تخمینہ 275 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
لاس اینجلس میں خوفناک آگ پر3ہفتوں بعدقابو پالیاگیا، نقصانات کا تخمینہ 275 ارب ڈالر تک پہنچ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 February, 2025 سب نیوز
نیویارک (آئی پی ایس )امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی خوفناک آگ پر بالآخر 3 ہفتوں بعد قابو پالیا گیا۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق کیلیفورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ نے تصدیق کی ہیکہ 7 جنوری 2025 کو لگنے والی آگ پر اب مکمل طور پر قابو پالیا گیا ہے۔ کیلیفورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق آگ سے 37,000 ایکڑ سے زیادہ رقبہ اور 10,000 سے زائد گھر جل گئے جس سے تقریبا 30 افراد ہلاک اور ہزاروں بیگھر ہوگئے۔خبر ایجنسی کے مطابق آگ سے نقصانات کا تخمینہ 250 سے 275 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔
خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ7 جنوری کو لگنے والی آگ کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے، تاہم ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی نے اس خطرناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔لاس اینجلس کے میئر کیرن باس نے کہا ہیکہ بحالی کا عمل تیز کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرہ افراد جلد از جلد اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔امریکی میڈیا کے مطابق آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آتش زنی کے متعدد واقعات سے بھی نمٹنا پڑا اور حکام نے آتش زنی کے الزام میں کم از کم 8 افراد کو گرفتار کیا۔ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں درختوں، جھاڑیوں، پتوں اور کچرے کو آگ لگائی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق 14 جنوری کی شام ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا جس نے مبینہ طور پر کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگائی تھی۔
لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے مطابق خاتون نے اعتراف کیا کہ وہ آگ لگانے اور تباہی پھیلانے سے لطف اندوز ہوتی تھی۔امریکی میڈیا کے مطابق اسی روز ایک اور شخص کو درختوں کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ جلتے ہوئے پتوں کی خوشبو پسند کرتا ہے۔12 جنوری کو ایک اور مشتبہ شخص کو شمالی ہالی وڈ میں آتش زنی کے پرانے وارنٹ پر گرفتار کیا گیا، اس پر باربی کیو لائٹر کا استعمال کرتے ہوئے آگ لگانے کا الزام تھا۔حکام کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگنے والی آگ کے 95 فیصد واقعات انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، چاہے وہ آتش زنی ہو، گرے ہوئے بجلی کے تار ہوں یا غیر محتاط آتشبازی۔ یہ واقعات بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنتے ہیں، 2020 میں آتش زنی کے نتیجے میں 44 ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ جل کر خاک ہوگیا تھا جب کہ گزشتہ سال کیلیفورنیا میں آتش زنی کے الزام میں مجموعی طور پر 109 گرفتاریاں ہوئیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: لاس اینجلس
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔