انتظار حسین اور پاکستان، ایک کہانی کے 2 عنوان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
2 فروری 2016ء کو اردو کے عظیم افسانہ نگار انتظار حسین انتقال کر گئے تھے۔ اس مناسبت سے آج یہ خصوصی تحریر شائع کی جا رہی ہے۔
اُس شخص نے چڑیوں اور درختوں کے لیے لکھا، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ مقبولیت انسانوں میں حاصل کی۔ یہ کرشمہ کیسے رونما ہوا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے انتظار حسین ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو کیا جواب دیتے؟ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار ایسا ہی کوئی سوال ذہن میں آیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، میں نے انہیں فون کر دیا۔ جیسا کہ ان کی عادت تھی، خود فون اٹھایا۔ صاف محسوس ہوا کہ ایک بزرگ سے بات ہو رہی ہے۔ جی خوش ہو گیا۔ میرا سوال بھی انہوں نے غور سے سنا پھر کہا:
’یار، میں آپ کو جانتا نہیں، بات کیسے ہو سکتی ہے۔‘
معلوم ہوا کہ بات چیت کے لیے جان پہچان ضروری ہے۔ اسی دکھ میں مجھے سلیم احمد مرحوم کی برسی کی یاد آئی۔ ہم جامعہ کراچی والے ذوق و شوق سے پہنچے۔ بنیادی سبب تو سلیم احمد تھے جن کے ساتھ 2 واسطوں سے تعلق تھا۔ ان کی لاڈلی بیٹی عینی ہماری کلاس فیلو تھیں۔ خیر، یہ تعلق تو بعد میں بنا، پہلا تعلق ان کے پھڑکتے ہوئے جملے سے قائم ہوا تھا جیسے:
’آزادی رائے کو بھونکنے دو۔‘
ان کے ایسے ہی جملے تھے جو دل میں ترازو ہو جاتے تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب استاد گرامی ڈاکٹر طاہر مسعود نے ان سے انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو سے جو ہنگامہ اٹھا اور اس پر برادر گرامی محمد حمید شاہد کے مضمون نے پیٹرول چھڑک کر سلائی دکھائی تھی۔ ان سب واقعات نے سلیم احمد کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا تعلق بنا دیا۔ دوسرا لالچ صرف ایک تھا کہ لاہور سے انتظار حسین تشریف لا رہے ہیں۔ وہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے طبیعت کے غریب نوجوانوں کی طرح عنابی رنگ کی ڈائری ان کی خدمت میں پیش کی، ایک اچٹتی ہوئی نگاہ انہوں نے مجھ پر ڈالی تو میں نے زیر لب کچھ اس انداز میں 2 الفاظ کہے جن کی صرف لہریں ان کے کان تک پہنچ سکیں، آٹو گراف۔ وہ دھیرے سے مسکرائے پھر لکھا:
’آٹو گراف مت لیا کرو‘۔
لیجیے، ہم اپنے عہد کے سب سے بڑے افسانہ نگار کے آٹو گراف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کامیابی کا نشہ تادیر رہا، لیکن جب اس روز انہوں نے بات چیت کے لیے جان پہچان کی شرط لگائی تو میں ان کے مخالفین کی طرح اس علامت کو سمجھ نہ پایا اور سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس فعل شریف یعنی آٹو گراف کے لیے بھی جان پہچان کو ضروری سمجھتے ہوں؟ پس، میں نے جان پہچان کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو مستنصر حسین تارڑ تک رسائی ہو گئی، گو، ان سے بات کرنا اور ان کا خشکی کا مارا ہوا جملہ برداشت کرنا آسان نہیں، لیکن خیر یہ ہوئی کہ ان سے بات کی ضرورت نہیں پڑی، انہیں پڑھنے کا کشٹ اٹھانا پڑا۔ وہ انتظار صاحب کو جانتے ہیں۔ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ انور سجاد کی چپقلش کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انور جب پاک ٹی ہاؤس میں انتظار صاحب کی میز پر آتا تو کہتا:
’بے شک آئندہ زمانوں میں تمہیں تمہاری زبان کے حوالے سے نصابوں میں یاد رکھا جائے گا لیکن ادیب کی حیثیت سے نہیں۔‘
ڈاکٹر انور سجاد، انتظار حسین کی زبان اور ادب دونوں کو دقیانوسی قرار دیا کرتے تھے۔ زبان کو اس لیے کہ وہ ان کی طرح بے تکلف نہ تھے کہ موٹی موٹی گالیوں کو اپنی تحریر میں جگہ دے سکیں اور ادب کو اس لیے کہ ان کا ادب دیو مالا اور مقدس صحیفوں کی دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی حکایات سے پھوٹتا تھا۔ جب کہ ڈاکٹر انور سجاد ادب کے اس اسلوب کو ماضی پرستی ( ناسٹیلجیا ) سے تعبیر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ انتظار حسین اپنے ماضی سے اداسی محسوس کرتے ہیں اور اسی کے زیر اثر ان کے ادب کا بوٹا پھوٹتا ہے۔ انتظار صاحب اس تنقید سے آگاہ تھے لہٰذا کہا کرتے:
’اداس تو انسان ہوتے ہیں بھلا کبھی بندر بھی اداس دیکھے گئے ہیں؟‘۔
انتظار صاحب کا یہ جملہ بڑا بلیغ ہے۔ اس لیے کہ مظاہر فطرت، جانوروں اور خاص طور پر بندروں کی عادات کا گہرا مشاہدہ رکھنے کے باوصف وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ جانور حتیٰ کہ بندر بھی اداس ہوتے ہیں، لیکن علامتوں میں بات کرنے والے انتظار حسین نے ایک ایسی بات کہہ دی جیسی پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد ہوں یا انتطار حسین، یہ دونوں بزرگ اپنی اپنی فرد ادب لکھ کر ابد آباد کو آباد کر چکے ہیں۔ ان کے بعد کس کی زبان اور کس کا ادب کھڑا رہ سکا؟ یہ فیصلہ تاریخ سنا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مذاکرات سے گریزپائی کے راز
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ہوں یا ان کے دیگر ہم خیال، انتظار حسین ان کی نگاہ میں متروک کیوں تھے؟ یہ سوال بہت پیچیدہ ہے۔ اس سوال کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ 21 دسمبر 1925 کو یوپی کے شہر میرٹھ کے قصبے ڈبائی میں پیدا ہونے والے انتظار حسین کو سوتے جاگتے میں ڈبائی کی یاد کیوں ستاتی تھی۔ محمد حسن عسکری کی تحریک پر انہوں نے ڈبائی سے پاکستان ہجرت کی تو یہ ہجرت ان کے لیے زندگی بھر یاد رہنے والا واقعہ کیوں بن گئی؟ اس سوال کا جواب مختصر نہیں ہے۔
انتظار حسین نے مذہبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ آئندہ زندگی میں جدید تعلیم اور جدید علوم سے استفادے کے باوجود یہ پس منظر ان کے شانہ بشانہ چلا۔
محمد حسن عسکری کی تحریک پر پاکستان کی طرف ہجرت میں بھی ممکن ہے کہ یہی پس منظر کارفرما رہا ہو، لیکن ایک اہم واقعہ اور بھی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد محمد حسن عسکری اور منٹو نے پاکستانی ادب کی تحریک اٹھائی تو نوجوان انتظار حسین اس وقت بھی ان بزرگوں کے ساتھ تھے۔ ایسا پس منظر گہرے اثرات رکھتا ہے، لہٰذا دوست ہوں یا دشمن، ہمیشہ اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کے بیج برگ و بار لاتے رہتے ہیں اور ایسی بحث تازہ رہتی ہے۔
کچھ ایسا پس منظر ہی رہا ہو گا کہ ادیبوں کے شہرہ آفاق انٹرویو کرنے والے ڈاکٹر طاہر مسعود نے انہیں کریدا اور پوچھا کہ انتظار صاحب! کیا سبب ہے کہ آپ اپنے ماضی سے دامن چھڑا نہیں پاتے لہٰذا حال میں نہیں دیکھے جاتے؟ انتظار حسین نے اس سوال کا بڑا دلچسپ اور معنی خیز جواب دیا۔ انہوں نے کہا:
’ہجرت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ کیا میں ہجرت کو بھول جاؤں؟ اگر ہم پاکستان پہنچ چکے ہیں تو کیا میں 1947ء کو فراموش کردوں؟ اگر میں اسے بھول گیا تو پاکستان میرے لیے بے معنی ہوجائے گا۔ جس تاریخ کے پیٹ سے پاکستان پیدا ہوا ہے اس تاریخ کو لوگ کہتے ہیں کہ بھول جاؤ، حالانکہ یہ تو ناجائز اولاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جائے‘۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی پارسائی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
انتظار صاحب اپنے ماضی کو بھول نہ پائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اور ان کا پاکستان اپنے ماضی کی جائز اولاد ہیں۔ اچھا وہ اور ان کا ملک اپنے ماضی کی جائز اولاد تو ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا ماضی کیا ہے، بہ الفاظ دیگر یہ دونوں تاریخ کی جائز اولاد کیسے ہیں؟
افسانہ نگار مسعود اشعر نے اس کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا ماضی مسلم تہذیب اور ہندو دیو مالا سے پھوٹتا ہے۔ گویا ایک پانی ایک آگ۔ آگ اور پانی کی یکجائی نے مسعود اشعر کو مزید پریشان کر دیا اور سوال اٹھایا کہ چلیے مسلم تہذیب تو انہیں گھر سے ملی، ہندو دیو مالا اُن تک کیسے پہنچی؟ وہ بتاتے ہیں کہ مسلم تہذیب تو انہیں باپ سے ورثے میں ملی کہ سخت مذہبی آدمی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کو بھی ان ہی جیسا بننا چاہیے۔ اس کوشش میں جہاں اور بہت سے کام ہوئے ہوں گے، ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ ان کے لخت جگر نے قرآن حکیم ترجمے کے ساتھ پڑھا۔ یہ انکشاف ان کے سوال کا آدھا جواب تھا۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب انہوں نے اندازے سے تلاش کیا۔ ان کا خیال ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے اسکول کی تعلیم ہو گی جس کے واسطے سے ہندو دیو مالا تک ان تک پہنچی ہوگی۔ یہ عین ممکن ہے کہ گھر سے باہر کی فضا نے ایسا کیا ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نتیجے تک پہنچتے ہوئے مسعود اشعر ایک اہم کڑی فراموش کر گئے۔ یہ کڑی وہی ہے، ڈاکٹر انور سجاد جس کے طعنے انتظار حسین کو دیا کرتے تھے۔
تارڑ صاحب گواہی دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا انتظار حسین سے سامنا ہوتا تو وہ کہا کرتے:
’کیوں انتظار! تمہاری نانی اماں نے پچھلی شب تمہیں کون سی کہانی سنائی؟‘
تو بات یہ ہے کہ مسعود اشعر جو نکتہ نظر انداز کر گئے، وہ وہی نانی اماں والا تھا جو ان کے حریف صادق ڈاکٹر انور سجاد کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہا۔ کھوج لگانے کی اصل بات یہ تھی کہ وہ کیسی کہانیاں تھیں جو انتظار حسین نے اپنی نانی سے سنیں؟
انتظار صاحب نے جب دیکھا کہ لوگ اس معاملے میں خوب ٹھوکریں کھا رہے ہیں تو انہوں نے اس بارے میں خود قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’میری کہانی‘ کے عنوان سے اپنے فکر و فن اور افسانے کے خد و خال واضح کیے۔ یہ ان کا وہی مضمون ہے جو اس معنی خیز جملے سے شروع ہوتا ہے:
’کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں اپنے ہی ایک فقرے کی پیدا وار ہوں‘۔
ایسی تہہ دار بات کہنے کے بعد وہ اپنی بات کا آغاز 1947 سے کرتے ہیں۔ اپنی اسی تحریر میں انہوں نے ان کہانیوں کی کہانی بھی بیان کی ہے جو انہوں نے نانی اماں سے سنیں جیسے:
’جب نانی اماں سانپ کی کہانی شروع کرتی تھیں تو سارا خوف زائل ہو کر حیرت اور استعجاب میں بدل جاتا تھا۔ ایک راج کمار تھا اور ایک راج کماری تھی۔ دونوں میں بڑا پیار تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ راج کمار کو زمین والے (سانپ) نے ڈس لیا۔ راج کماری بہت روئی۔ ایک جوگی نے اس پر ترس کھا کر کہا کہ اگر تو راجا باسک کے دربار میں چلی جائے تو وہ تیرے پتی کو زندہ کر سکتا ہے۔۔۔۔‘
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
کیا کمال کی نانی اماں تھیں اور کیسی کمال کی ان کی کہانی تھی، لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ہم بہ قول انتظار صاحب کے کہانی کے حیرت و استعجاب میں تو ڈوبے لیکن یہ کھوج نہ لگا سکے کہ نجیب الطرفین سید زادی کی کہانیوں میں سانپ، جوگی اور راجا باسک جیسے مقامی بلکہ ہندو کردار کہاں سے آ گئے تھے؟
یہ ایسی گتھی ہے جسے سلجھانے کے لیے قرۃ العین حیدر سے مدد لینی پڑے گی یا اکبر اعظم کا ذہن پڑھنا پڑے گا، جس نے کہا تھا کہ اب ہم فرغانہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے، ہندوستان کے ہو چکے ہیں اور جس بات میں بھلا ہندوستان کا ہے، اُسی میں ہمارا بھلا بھی ہے، یا پھر یہ راز سمجھنا ہو گا کہ نظام الدین اولیا جیسی ہستی ’نجام جی‘ میں کیسے بدلی اور ان کے فیض سے امیر خسرو جیسی شخصیت کیسے وجود میں آئی؟ یا قائد اعظم محمد علی جناح کے اس قول کی معرفت حاصل کرنی ہوگی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اسی روز بن گیا تھا جس روز پہلا مقامی مسلمان ہوا تھا۔ فرقہ پرست اس سخن میں فرقہ پرستی کی بو پاتے ہیں لیکن ان کے اس بیان میں گزشتہ ایک ہزار برس کا شعور بولتا ہے اور بتاتا ہے کہ توحید کے نغمہ خواں جب یہاں آئے تو انہوں نے پورے کے پورے ہندوستان کو قبول کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں والے اپنی الجھنوں کا شکار رہے اور ہمیں قبول نہ کر سکے۔
تو واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین اسی ہند اسلامی تہذیب کے نماہندہ ہیں جس کے بطن سے پاکستان پیدا ہوا۔ ہند اسلامی تہذیب ہو، اس کی کوکھ سے جنم لینے والا پاکستان ہو یا انتظار حسین کا ادب، یہ سب ایک ہی شاخ کے گل بوٹے ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے تاریخ و تہذیب کی جڑوں سے گہری وابستگی ضروری ہے، انہیں سمجھنا بے جڑ کے جھاڑ جھنکار کے بس کی بات نہیں۔
میرے خیال میں یہ معمہ اب حل ہو چکا ہے کہ چڑیوں اور درختوں کے لیے لکھنے والے انتظار حسین انسانوں کے محبوب کیسے بنے؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا ادب چوں کہ تاریخ اور تہذیب کے فطری دھاروں اور طغیانیوں سے گزر کر ایک صاف شفاف ندی میں بدلا تھا، اس لیے انہیں فکر نہیں تھی کہ اگر ڈاکٹر انور سجاد یا ان کے ہم خیالوں کے زیر اثر وہ توجہ نہیں بھی پاتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں یقین تھا کہ سچ اور فطری جذبے کے تال میل سے وجود پانے والا ادب ہی دیرپا ثابت ہوگا۔ پھر وقت نے ان کے مؤقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ انتظار حسین ہوں یا پاکستان، یہ ایک ہی کہانی کے دو عنوان ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
انتظار حسین پاکستان حسن عسکری ڈاکٹر انورسجاد سلیم احمد قائداعظم مستنصر حسین تارڑ ہندودیو مالا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ڈاکٹر انورسجاد سلیم احمد مستنصر حسین تارڑ ہندودیو مالا ڈاکٹر انور سجاد جان پہچان سلیم احمد اپنے ماضی کی کہانی انہوں نے دیو مالا کرتے تھے آٹو گراف یہ ہے کہ ہے کہ ان کہ ان کا سوال کا اس سوال ہیں اور کے ساتھ تھا کہ کا ادب یہ بھی اور اس اور ان کے لیے ہوا کہ اس لیے
پڑھیں:
16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
اسلام ٹائمز: شاہ حسین نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے ”بلیک ستمبر“ کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ”دا ٹیررسٹ پرنس“ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کیریئر بطور بریگیڈیئر ہی ختم ہو جاتا۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
اسرائیل کے خلاف 1967ء میں ہونے والی چھے روزہ جنگ میں شکست کے بعد اردن میں حالات کافی نازک تھے۔ مصر اور شام کے ساتھ اردن نے اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھایا تھا اور وہ بیت المقدس، غزہ اور غرب اردن کے علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ ایسے میں فلسطینی ’فدائین‘ نے غرب اردن کے ساتھ واقع علاقوں میں اپنی موجودگی قائم کرلی اور وقتاً فوقتاً اسرائیلی قبضے میں لیے گئے سرحدی علاقوں پر کامیاب حملے کیے جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جس کے باعث انہیں شامی اور عراقی حمایت بھی ملنے لگی۔ اس گمبھیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اردن کے سربراہ شاہ حسین نے اپنے پاکستانی دوست بریگیڈئیر ضیاالحق سے مدد مانگی جو اُس وقت عمان میں پاکستانی سفارتخانے میں ڈیفنس اتاشی کے فرائض نبھا رہے تھے۔ فلسطینیوں کی اس تحریک کی بیخ کنی کے لیے 1970ء میں 16 دسمبر سے 27 دسمبر تک ہونے والی جنگ کو فلسطینی ”بلیک ستمبر“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی مبصرین کے مطابق اس جنگ میں اردن کے شاہ حسین کو فیصلہ کن کامیابی دلوانے میں جنرل ضیاءالحق کا مبینہ ہاتھ تھا۔
اردن کی فوج کو ”بلیک ستمبر“ کے واقعات کے بعد امریکہ کی جانب سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر مالیت کا اسلحہ دیا گیا تھا۔ مصنف اور محقق طارق علی اپنی کتاب "The Duel" میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق امریکہ سے اپنی ٹریننگ مکمل کرکے ملک واپس آئے تو انہیں اردن بھیج دیا گیا جس نے حال میں ہی چھے روزہ جنگ میں خفت اٹھائی تھی۔ اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے کے سابق عہدیدار ”بروس ریڈیل“ اپنی کتاب ” وٹ وی ون“میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق تین سال قبل اردن آئے تھے اور ان کی ذمے داری یہ تھی کہ وہ پاکستانی اور اردنی فوج کے درمیان عسکری حوالے سے باہمی تعلقات بڑھائیں اور اردن میں ہونے والے واقعات کی رپورٹ وطن واپس بھیجیں۔ لیکن بریگیڈیئر ضیا الحق نے اپنے دیے گئے مینڈیٹ سے بڑھ کر بھی ذمہ داریاں نبھائیں جس کا تذکرہ اردن میں اُس وقت موجود سی آئی اے کے افسر ”جیک او کونل“ نے اپنی کتاب ”کنگز کونسل “میں کیا ہے۔
جیک او کونل، جنہوں نے خود لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دو سال گزارے تھے، لکھتے ہیں کہ سنہ 1970ء میں جب شامی افواج اردن پر چڑھائی کی غرض سے ٹینک لے کر آگئیں اور اردن کو امریکہ کی جانب سے امداد کے بارے میں کوئی جواب نہ ملا تو شاہ حسین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاہ حسین نے اپنے ”دوست“ ضیا الحق سے درخواست کی کہ وہ شامی محاذ کا دورہ کریں اور انہیں زمینی صورتحال سے آگاہ کریں۔ جیک او کونل لکھتے ہیں کہ جب ضیاالحق سے اردنی حکام نے حالات کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ”حالات بہت خراب ہیں“۔ بروس ریڈیل اپنی کتاب کے باب چار میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ضیا الحق نے شاہ حسین کو مشورہ دیا کہ اردنی فضائیہ کو شامی فوج کے خلاف استعمال کیا جائے اور یہی وہ فیصلہ تھا جس کے باعث اردن جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا۔
”بلیک ستمبر“ میں ضیاالحق کے کردار کے حوالے سے سب سے اہم گواہی شاہ حسین کے بھائی اور اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال نے بروس ریڈیل سے بات کرتے ہوئے دی۔ بروس ریڈیل لکھتے ہیں کہ شہزادہ حسن بن طلال نے اپریل 2010ء میں انہیں بتایا کہ ضیاالحق، شاہ حسین کے دوست اور ہم راز تھے اور شاہی خاندان اس جنگ میں ان کی مدد کا بہت شکر گزار تھا۔ اس جنگ میں ان کی موجودگی اس حد تک تھی کہ وہ تقریباً فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ بروس ریڈیل کے مطابق ضیاالحق کا یہ فعل پاکستان میں حکام کو ناگوار گزرا کیونکہ یہ واضح تھا کہ ضیاالحق نے اردنی فوج کے ساتھ لڑ کر اپنی سفارتی ذمے داریوں اور احکامات سے تجاوز کیا ہے۔ لیکن ان خدمات کا صلہ ضیاالحق کو شاہ حسین کی جانب سے کی گئی سفارش کی صورت میں ملا۔
شاہ حسین نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے ”بلیک ستمبر“ کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ”دا ٹیررسٹ پرنس“ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کیریئر بطور بریگیڈیئر ہی ختم ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق نے بلیک ستمبر کے قتل عام میں حصہ لیا تھا اور اپنی فوجی اور سفارتی ذمے داریوں سے کوتاہی برتی اور قواعد کی خلاف ورزی کی۔ لیکن شاہ حسین کی سفارش نے شاید وزیراعظم بھٹو کو یہ عندیہ دیا کہ ضیاالحق ان کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
سرکاری طور پر یہ جنگ 16 ستمبر سے 27 ستمبر تک جاری رہی جس کے بعد چھوٹے پیمانے پر جھڑپیں اگلے برس جولائی تک چلتی رہیں۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے بقول اس جنگ میں بہت بڑی تعداد میں فدائین کو نقصان اٹھانا پڑا جن کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ طارق علی اپنی کتاب ”دا ڈوئیل“ میں نامور اسرائیلی جنرل ”موشے دایان“ سے منسوب بیان دہراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”شاہ حسین نے 11 دن میں جتنے فلسطینی ہلاک کیے اتنے تو اسرائیل 20 برسوں میں بھی نہیں ہلاک کر سکتا۔“ فلسطینی زخمیوں کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایئرپورٹ پر عالمی تنظیم ریڈ کراس کی جانب سے اردن کے دارالحکومت عمان سے لایا گیا تھا۔
ایک صحافی کے بقول شاہ حسین نے ضیا الحق کی مدد سے اپنی بدؤوں پر مشتمل فوج فلسطینیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجی اور اس کے بعد ایک ایسا قتل عام ہوا جس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن اس بیانیے کے بالکل برعکس بیانیہ ایک سابق پاکستانی سفارتکار نے پیش کیا جو ستمبر 1970ء میں خود اردن میں تعینات تھا۔ اگست 2010 میں انگریزی اخبار ”دا نیوز“ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سابق سفیر طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ چھے روزہ جنگ میں شکست کے بعد مختلف عرب ممالک نے پاکستان سے عسکری مدد اور تربیت کی درخواست کی تھی جس کے بعد پاکستان نے اردن، شام اور عراق میں اپنے افسران کو بھیجا تھا۔ طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ اردن بھیجے جانے والوں میں تینوں افواج کے 20 اعلیٰ افسران شامل تھے جن کی سربراہی بری فوج کے میجر جنرل نوازش علی کر رہے تھے اور ضیاالحق ان کے نائب تھے۔
طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ بعد ازاں پاکستانی فضائیہ کا بھی ایک رجمنٹ شاہ حسین کی درخواست پر اردن پہنچ گیا لیکن اس پوری ٹیم کا مینڈیٹ صرف اور صرف اردنی افواج کو تربیت دینا تھا اور کسی قسم کی جنگ میں حصہ لینا نہیں تھا۔ طیب صدیقی کے بقول ضیاالحق نے فوجی دستے کی کمانڈ سنبھال لی لیکن کوئی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی اور اسرائیلی دباؤ میں آ کر شام نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ طیب صدیقی اپنے مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ پاکستانی سفیر اور فوجی دستے کے سربراہ کی غیر موجودگی میں وہ سفارتخانے کی قیادت کر رہے تھے۔ دو ستمبر کو انہیں ضیاالحق کا فون موصول ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ شاہ حسین نے شامی سرحد کے نزدیک موجود ”اربد“ شہر میں انہیں فوجی ڈویژن کی قیادت کرنے کو کہا ہے کیونکہ اردنی کمانڈر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔
طیب صدیقی آگے لکھتے ہیں کہ میں نے فوراً سیکریٹری دفاع غیاث الدین کو فون کرکے معاملہ بتایا تو انھہوں نے غیر متوقع طور پر، بلا توقف اجازت دے دی۔ میں نے اس پر اعتراض کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ”ہم نے استخارہ کر لیا ہے۔ ہاشمی سلطنت کا ستارہ عروج پر جا رہا ہے، بادشاہ کی ہدایات پر عمل کرو۔ طیب صدیقی کے بقول ضیاالحق نے فوجی دستے کی کمانڈ سنبھال لی لیکن کوئی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی اور اسرائیلی دباؤ میں آ کر شام نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ ان کے مطابق فلسطینیوں کے مبینہ قتل عام میں ضیاالحق کا کُل کردار یہی تھا۔
طیب صدیقی نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا کہ ”عمومی طور پر یہ وثوق سے کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق ہزاروں فلسطینیوں کے قتل میں ملوث تھے اور یہ کہ اس کے بعد یاسر عرفات نے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی پاکستان نہیں جائیں گے لیکن اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یاسر عرفات بعد میں متعدد بار پاکستان کے دورے پر گئے۔“ البتہ یہ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات جنرل ضیاءالحق کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ 1970ء میں 16 ستمبر سے لے کر 27 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ کو تاریخ میں ”بلیک ستمبر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کئی مبصرین نے بعد ازاں لکھا ہے کہ اردن کے شاہ حسین کو اس جنگ میں فیصلہ کن مشورہ دینے والے مستقبل میں پاکستان کے فوجی آمر محمد ضیا الحق تھے جن کی مدد سے اردنی فوج کو جنگ جیتنے میں مدد ملی۔