WE News:
2025-09-18@20:10:46 GMT

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

بہت سی خواتین کے لیے پیٹ کے گرد چربی ایک عام مگر تشویشناک مسئلہ ہے۔ یہ صرف ظاہری تبدیلی نہیں بلکہ ذیابیطس، دل کی بیماری اور ہارٹ اٹیک جیسے خطرات سے بھی جڑی ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ خواتین میں پیٹ کی چربی بڑھنے کی بنیادی وجوہات، علامات اور اس سے نجات کے طریقے کیا ہیں۔

پیٹ کی چربی بڑھنے کی وجوہات

ہارمونی تبدیلیاں

سنِ یاس (Menopause) کے دوران ایسٹروجن کی سطح کم ہونے لگتی ہے جس کے باعث جسم میں چربی جمع ہونے کا طریقہ بدل جاتا ہے اور زیادہ تر پیٹ کے گرد جمع ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹ کی چربی کم کرنے کے لیے ناشتے میں کون سی غذائیں شامل کریں؟

عمر اور میٹابولزم کی کمی

عمر بڑھنے کے ساتھ میٹابولزم سست ہو جاتا ہے اور پٹھوں کی مضبوطی کم ہونے لگتی ہے، جس سے پیٹ پر چربی زیادہ جمع ہوتی ہے۔

تناؤ اور ہارمون کارٹیسول

مسلسل ذہنی دباؤ کارٹیسول کی سطح بڑھا دیتا ہے جو براہِ راست پیٹ کی چربی کو بڑھاتا ہے۔

غیر صحت مند خوراک

میٹھے مشروبات، جنک فوڈ، سفید آٹا اور تلی ہوئی اشیا پیٹ کے گرد چربی جمع کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ورزش کی کمی

بیٹھے رہنے کی عادت یا جسمانی سرگرمی کی کمی اضافی کیلوریز کو چربی میں بدل دیتی ہے، جو زیادہ تر پیٹ میں جمع ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پیٹ کی چربی کی وجوہات اور اسے ختم کرنے کے آسان طریقے

جینیاتی عوامل

کچھ خواتین میں قدرتی طور پر پیٹ کے گرد چربی جمع ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

نیند کی کمی

ناکافی یا غیر معیاری نیند بھوک کے ہارمونس (لیپٹن اور گھریلن) کو متاثر کرتی ہے، جس سے کھانے کی خواہش بڑھتی ہے اور پیٹ کی چربی زیادہ ہونے لگتی ہے۔

طبی مسائل اور ادویات

تھائیرائیڈ کے مسائل، پولی سسٹک اووریز (PCOS) یا کچھ دوائیں (جیسے کورٹیسون) بھی پیٹ کی چربی بڑھا سکتی ہیں۔

علامات

کمر کا گھیر 35 انچ (88 سینٹی میٹر) سے زیادہ ہونا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کافی پینے سے جگر کی چربی کم ہونے کا امکان

پیٹ کے گرد مستقل پھولا ہوا یا بھاری پن محسوس ہونا۔

ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا بڑھتا ہوا خطرہ۔

نجات کے طریقے

متوازن غذا: سبزیاں، دالیں، پھل، دبلا گوشت اور اجناس کھائیں، جبکہ شکر اور سفید آٹے سے پرہیز کریں۔

باقاعدہ ورزش: واک، سائیکلنگ اور تیراکی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ویٹ ٹریننگ کریں۔

تناؤ پر قابو: یوگا، مراقبہ اور سانس کی مشقیں مددگار ہیں۔

بہتر نیند: روزانہ 7 سے 9 گھنٹے کی پرسکون نیند لیں۔

الکحل اور غیر صحت مند مشروبات سے پرہیز: یہ پیٹ کی چربی کو بڑھاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیٹ کے گرد چربی پیٹ کی چربی کی کمی

پڑھیں:

مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔

گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔

اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔

اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔

سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔

الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔

تنخواہوں کی حد

ڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔

بنیادی سطح پر تبدیلی

گلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔

‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیں

ڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘

خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتی

جسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔

خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازی

خواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔

یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔

ادارت: عدنان اسحاق

متعلقہ مضامین

  • اسٹیٹ بینک ویمن انٹریپرینورشپ ڈے آج منائے گا
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • سعودی عرب میں وزیراعظم شہباز شریف کا والہانہ استقبال، دنیا میں پاکستان کی بڑھتی اہمیت کا عکاس
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • چین کی بڑھتی طلب، پاکستان کو بیف ایکسپورٹ کا نیا آرڈر حاصل
  • شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف