WE News:
2025-11-03@03:49:52 GMT

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

بہت سی خواتین کے لیے پیٹ کے گرد چربی ایک عام مگر تشویشناک مسئلہ ہے۔ یہ صرف ظاہری تبدیلی نہیں بلکہ ذیابیطس، دل کی بیماری اور ہارٹ اٹیک جیسے خطرات سے بھی جڑی ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ خواتین میں پیٹ کی چربی بڑھنے کی بنیادی وجوہات، علامات اور اس سے نجات کے طریقے کیا ہیں۔

پیٹ کی چربی بڑھنے کی وجوہات

ہارمونی تبدیلیاں

سنِ یاس (Menopause) کے دوران ایسٹروجن کی سطح کم ہونے لگتی ہے جس کے باعث جسم میں چربی جمع ہونے کا طریقہ بدل جاتا ہے اور زیادہ تر پیٹ کے گرد جمع ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹ کی چربی کم کرنے کے لیے ناشتے میں کون سی غذائیں شامل کریں؟

عمر اور میٹابولزم کی کمی

عمر بڑھنے کے ساتھ میٹابولزم سست ہو جاتا ہے اور پٹھوں کی مضبوطی کم ہونے لگتی ہے، جس سے پیٹ پر چربی زیادہ جمع ہوتی ہے۔

تناؤ اور ہارمون کارٹیسول

مسلسل ذہنی دباؤ کارٹیسول کی سطح بڑھا دیتا ہے جو براہِ راست پیٹ کی چربی کو بڑھاتا ہے۔

غیر صحت مند خوراک

میٹھے مشروبات، جنک فوڈ، سفید آٹا اور تلی ہوئی اشیا پیٹ کے گرد چربی جمع کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ورزش کی کمی

بیٹھے رہنے کی عادت یا جسمانی سرگرمی کی کمی اضافی کیلوریز کو چربی میں بدل دیتی ہے، جو زیادہ تر پیٹ میں جمع ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پیٹ کی چربی کی وجوہات اور اسے ختم کرنے کے آسان طریقے

جینیاتی عوامل

کچھ خواتین میں قدرتی طور پر پیٹ کے گرد چربی جمع ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

نیند کی کمی

ناکافی یا غیر معیاری نیند بھوک کے ہارمونس (لیپٹن اور گھریلن) کو متاثر کرتی ہے، جس سے کھانے کی خواہش بڑھتی ہے اور پیٹ کی چربی زیادہ ہونے لگتی ہے۔

طبی مسائل اور ادویات

تھائیرائیڈ کے مسائل، پولی سسٹک اووریز (PCOS) یا کچھ دوائیں (جیسے کورٹیسون) بھی پیٹ کی چربی بڑھا سکتی ہیں۔

علامات

کمر کا گھیر 35 انچ (88 سینٹی میٹر) سے زیادہ ہونا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کافی پینے سے جگر کی چربی کم ہونے کا امکان

پیٹ کے گرد مستقل پھولا ہوا یا بھاری پن محسوس ہونا۔

ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا بڑھتا ہوا خطرہ۔

نجات کے طریقے

متوازن غذا: سبزیاں، دالیں، پھل، دبلا گوشت اور اجناس کھائیں، جبکہ شکر اور سفید آٹے سے پرہیز کریں۔

باقاعدہ ورزش: واک، سائیکلنگ اور تیراکی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ویٹ ٹریننگ کریں۔

تناؤ پر قابو: یوگا، مراقبہ اور سانس کی مشقیں مددگار ہیں۔

بہتر نیند: روزانہ 7 سے 9 گھنٹے کی پرسکون نیند لیں۔

الکحل اور غیر صحت مند مشروبات سے پرہیز: یہ پیٹ کی چربی کو بڑھاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیٹ کے گرد چربی پیٹ کی چربی کی کمی

پڑھیں:

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی

آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔

وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟

وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔

بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟

ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔

ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔

سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی

بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔

لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔

صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔

لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • بڑھتی آبادی، انتظامی ضروریات کے باعث نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں، عبدالعلیم خان
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
  • بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
  • شبر زیدی کے خلاف دو دن قبل درج ہونے والی ایف آئی آر ختم کیوں کرنا پڑی؟