مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی شہریت کا حصول مزید مشکل: ٹیسٹ سخت کر دیا گیا، کیا تبدیل ہوا؟
امریکا کی شہریت کا حصول مزید مشکل ہوگیا کیوں کہ امریکی حکومت نے شہریت کے خواہش مند افراد کے لیے سوک ٹیسٹ کو مزید سخت کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی شہریت اب صرف پیدائش سے نہیں ملے گی، سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیدیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن کے عمل کو مزید کڑا بنانے کے تحت اس ٹیسٹ میں متعدد نئی تبدیلیاں کی ہیں جس سے شہری بننے کا عمل خاصا مشکل ہو گیا ہے۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق یہ نیا سوک ٹیسٹ دراصل سنہ 2020 میں صدر ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں متعارف کروایا گیا تھا جسے بعد میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے انتہائی بوجھل قرار دے کر واپس لے لیا تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ نے اسی ٹیسٹ کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔
نئے ٹیسٹ میں کیا تبدیلی لائی گئی ہے؟پہلے امیدواروں کو 100 سوالات میں سے صرف 10 پوچھے جاتے تھے جن میں سے 6 کے درست جواب دینا کافی ہوتا تھا۔
مزید پڑھیے: 50 لاکھ ڈالرز کا ’گولڈ کارڈ‘ خریدیں، امریکی شہریت حاصل کریں، ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا منصوبہ
اب نئے ٹیسٹ میں امیدواروں کو 128 سوالات پر مشتمل مواد سے تیاری کرنی ہوگی اور ان میں سے 20 سوالات پوچھے جائیں گے جن میں سے کم از کم 12 درست جوابات دینا ہوں گے۔
یہ ٹیسٹ زبانی طور پر لیا جاتا ہے اور سوالات ملٹی پل چوائس والے نہیں ہوتے بلکہ اکثر کے متعدد درست جوابات بھی ہو سکتے ہیں۔
دیگر شرائط کیا ہیں؟شہریت کے لیے درخواست دینے والے افراد کو کم از کم 3 یا 5 سال تک امریکا میں قانونی طور پر مستقل رہائش پذیر ہونا چاہیے (کیس کے مطابق)، انگریزی پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی صلاحیت دکھانی ہوگی اور امریکی تاریخ، سیاسی نظام اور قانون کی بنیادی سمجھ بھی ضروری ہے جس کا اندازہ اسی سِول ٹیسٹ سے لگایا جاتا ہے۔
بزرگ افراد کے لیے نرمیجو افراد 65 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں اور امریکا میں 20 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں ان کے لیے صرف 20 سوالات پر مشتمل محدود مواد سے ٹیسٹ دینا ہوگا۔ وہ ٹیسٹ اپنی پسندیدہ زبان میں دے سکتے ہیں۔
امیدوار کو دوسری بار ٹیسٹ دینے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ بھی ناکام ہو جائے تو اس کی شہریت کی درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔
یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں میں سختی کی ایک اور مثال ہے جس کے تحت قانونی امیگریشن کے عمل کو بھی مزید کٹھن بنایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکیوں کی اکثریت نے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کو مسترد کر دیا
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سختیاں کم تعلیم یافتہ یا بزرگ تارکین وطن کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہیں جبکہ حامیوں کے مطابق اس سے امریکی شہریت کا معیار بلند ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی شہریت امریکی شہریت کا حصول مشکل امریکی شہریت کے ٹیسٹ میں تبدیلی امریکی شہریت کے لیے ٹیسٹ