بھارت اور پاکستان طویل انتظار کے بعد نیزہ بازی مقابلے کے لیے تیار
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) کرکٹ میں دونوں ممالک کے درمیان شدید محبت اور شدید تر حریفانہ تعلقات ہیں، لیکن اس ہفتے دونوں ملکوں کی توجہ ایک سادہ اور مختصر کھیل یعنی نیزہ بازی کی طرف ہے۔
جاپان میں ہونے والی عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں بھارت کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔
یہ ان کا 2024 کے پیرس اولمپکس کے بعد پہلا آمنا سامنا ہو گا۔ اس وقت ندیم نے گولڈ میڈل جیتا تھا جبکہ چوپڑا نے چاندی پر اکتفا کیا، حالانکہ انہوں نے ٹوکیو اولمپکس 2020 میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔2025 میں جرمنی کے جولیان ویبر نے اب تک سب سے طویل تھرو (91.
(جاری ہے)
یہ ان کا سرجری کے بعد پہلا مقابلہ ہے، تاہم مداح اس پر فکرمند نہیں ہیں۔کراچی کے ایک مداح فرید خان نے کہا، ''ندیم نے جولائی میں پنڈلی کی سرجری کروائی تھی، اس لیے زیادہ نہیں کھیل پائے۔ لیکن جب وہ فٹ ہوں تو چھ کوششوں میں سے ایک یا دو بڑے تھرو نکال سکتے ہیں۔‘‘
مقبولیتدونوں کھلاڑی اپنے اپنے ملک میں بڑے ستارے ہیں کیونکہ بھارت اور پاکستان اولمپک میں بڑی کامیابی سے محروم رہے ہیں۔
بھارت کی آبادی 1.4 ارب ہے، مگر چوپڑا کا طلائی تمغہ 1964 کے بعد صرف تیسرا گولڈ تھا۔ ندیم کا طلائی تمغہ پاکستان کا 40 سال بعد پہلا گولڈ تھا۔ جب وہ پیرس سے لاہور واپس آئے تو ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا۔ چوپڑا سیمسنگ، ویزا اور کوکا کولا جیسے بڑے برانڈز کا چہرہ رہے ہیں۔ممبئی کے ایک مداح سمیت پانڈے نے کہا،''نیرج کا گولڈ میڈل ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔
وہ خوش گفتار ہیں، اچھی شخصیت کے مالک ہیں اور اب سب سے بڑے اسپورٹس آئیکنز میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘پاکستان میں بھی ندیم کی مقبولیت بے مثال ہے۔ خان کہتے ہیں، ''ہم نے ہر اولمپکس میں دوسروں کو گولڈ جیتتے دیکھا تھا۔ پھر ہمیں اپنا ہیرو ملا۔ یہ ناقابلِ بیان خوشی تھی۔‘‘
’دوست ہی نہیں بلکہ بھائی‘یہ حقیقت کہ دونوں حالیہ اولمپک چیمپئن ہمسایہ ملکوں سے ہیں، ان کے رشتے کو ایک خاص پہلو دیتی ہے۔
پانڈے نے کہا، ''یہ بات کہ نیرج کا حریف پاکستان سے ہے، اس کو اور بھی بڑا بنا دیتی ہے۔‘‘
2024 کے اولمپکس کے بعد پورے جنوبی ایشیا میں فخر کا احساس تھا۔ چوپڑا کی والدہ سروج دیوی نے کہا، ''ہمیں سلور پر بھی خوشی ہے۔ جس نے گولڈ جیتا وہ بھی ہمارا بچہ ہے اور جس نے سلور جیتا وہ بھی ہمارا بچہ ہے۔‘‘
اسی طرح ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے کہا، ''وہ صرف دوست نہیں بلکہ بھائی ہیں۔
نیرج بھی ہمارے بیٹے کی طرح ہے، میں اس کے لیے بھی دعا کرتی ہوں کہ وہ میڈل جیتے۔‘‘دسمبر میں ندیم نے سوشل میڈیا پر چوپڑا کو سالگرہ کی مبارکباد دی۔
پانڈے کے مطابق، ''ماؤں کے بیانات اس رشتے کا سب سے خوبصورت پہلو ہیں، ورنہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے ہیں۔‘‘
دعوت منسوخاس سال چوپڑا نے ندیم کو اپنے ایونٹ ''نیرج چوپڑا کلاسک‘‘ میں شرکت کی دعوت دی تھی جو جولائی میں بنگلورو میں ہونا تھا۔
لیکن اپریل میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جس میں زیادہ تر بھارتی سیاح تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی۔ بعد میں دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔اس کے بعد چوپڑا نے ندیم کو دعوت منسوخ کر دی۔ انہوں نے لکھا، ''گزشتہ 48 گھنٹوں میں جو کچھ ہوا اس کے بعد ارشد کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں پوری قوم کی طرح غمزدہ اور غصے میں ہوں۔‘‘انہوں نے اپنی والدہ کے بیانات پر تنقید کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کو بھی جواب دیا، ''جب میری والدہ نے گزشتہ سال معصومیت میں ایک بیان دیا تھا تو سب نے تعریف کی۔ آج انہی لوگوں نے ان پر تنقید شروع کر دی ہے۔‘‘
ان واقعات کے بعد اب ٹوکیو میں دونوں کا سامنا پہلی بار ہو گا اور ہر کوئی دیکھے گا کہ ان کے درمیان تعلقات کیسے ہیں۔
خان کے مطابق، ''ہمارے ممالک کے تعلقات اچھے نہیں، یہ حقیقت ہے۔ مگر دونوں پروفیشنل کھلاڑی ہیں اور ایونٹ پر توجہ رکھیں گے۔‘‘ دائمی وراثتیقیناً ٹوکیو میں صرف نیرج اور ندیم ہی نہیں ہیں۔ پاکستانی اسپورٹس رائٹر علی احسن کے مطابق، ''جولیان ویبر بہترین فارم میں ہیں اور گولڈ جیتنا چاہیں گے۔ گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز اور ٹرینیڈاڈ کے کیشورن والکاٹ بھی میڈل کی دوڑ میں ہیں۔
‘‘نیرج اور ندیم چاہے جیتیں یا ہاریں، ان دونوں کھلاڑیوں کی وراثت قائم ہو چکی ہے۔
پانڈے کے مطابق، ''نیرج نے پہلی بار دکھایا کہ بھارتی کھلاڑی بھی ایتھلیٹکس میں میڈل جیت سکتے ہیں۔ اس نے دوسرے بھارتی ایتھلیٹس کو حوصلہ اور اعتماد دیا ہے۔‘‘
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ خان نے کہا، ''ارشد ہم سب کے لیے ایک تحریک ہیں۔ چاہے جو بھی ہو، وہ تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ٹوکیو میں گولڈ جیتیں تو یہ مزید شاندار ہو گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور پاکستان چوپڑا نے کے مطابق کے بعد نے کہا
پڑھیں:
عرب جذبے کے انتظار میں
اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔ تحریر: سید رضا حسینی
دوحا شہر پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے آثار ختم ہونے سے پہلے پہلے قطر کے حکمران تل ابیب کی فوجی مہم جوئی کی روک تھام کے لیے عرب اسلامی اتحاد کی اہمیت ہر وقت سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ آل ثانی خاندان نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کر کے ان سے ہر قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں لیکن اسرائیلی حملے کے بعد اب انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور گروہی سلامتی کے اصول پر کاربند ہو چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پیر کے دن عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس دوحا میں منعقد کیا جائے گا جس میں قطر پر اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب راہ حل تلاش کیا جائے گا۔
خلیجی ریاستوں کی جانب سے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی فوجی طاقت پر اعتماد کرنے کا تجربہ ناکام ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے ایکس پر اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں صرف زبانی کلامی حد تک اسرائیل کی مذمت نہ کی جائے ورنہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا: "صیہونی جنون کے مقابلے میں ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل پانا چاہیے۔" علی لاریجانی نے مزید لکھا: "یہی فیصلہ صیہونی رژیم کے مالک کو تشویش میں مبتلا کر دے گا اور وہ عالمی امن قائم کرنے اور نوبل انعام حاصل کرنے کی خاطر ہی سہی صیہونی رژیم کو ایسے مزید اقدامات انجام دینے سے روکے گا۔"
اتحاد یا نابودی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی ایشیا پر استعماری طاقتوں کے قبضے اور اثرورسوخ کے باعث عرب اسلامی ممالک اب تک گروہی تحفظ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث یہ خطہ عام طور پر مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بنا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینٹکام (مغربی ایشیا میں امریکہ کی مرکزی فوجی کمان) کے ذریعے خطے کی سلامتی یقینی بنانے کا نظریہ پیش کیا جو آج تک جاری تھا۔ عرب حکمرانوں کا تصور تھا کہ وہ امریکہ کو اپنے اپنے ملک میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے کر اپنی قومی سلامتی بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور یوں کمزور فوج اور فوجی طاقت کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔
آج عرب حکمرانوں پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت تک ان کا دفاع کرے گا جب تک اس کے اپنے مفادات اس بات کا تقاضا نہ کریں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی خطرے میں پڑے۔ لہذا جیسے ہی اسرائیل نے ایک عرب ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس ملک میں موجود امریکہ کا جدید ترین میزائل دفاعی نظام خاموش تماشائی بنا رہا اور اسرائیلی میزائل اپنے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: "اسرائیلی میزائل بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل سے اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعے فائر کیے گئے تھے لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جو طوفان الاقصی آپریشن سے کچھ دن پہلے تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ لہذا اسرائیل کے اقدامات نے خلیجی ریاستوں پر بھی اتحاد کی اہمیت واضح کر دی ہے۔"
دنیا کے مسلمانو متحد ہو جاو
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے جو وارننگ جاری کی ہے وہ منافقت اور اجنبی طاقتوں پر تکیہ ختم کر کے آپس میں متحد ہو جانے کی ضرورت پر مبنی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسلامی ممالک کے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرہ ختم کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں؟ اس کی واحد وجہ اسلامی ممالک کا آپس میں متحد نہ ہونا اور اپنے دفاع اور سیکورٹی امور کے لیے اجنبی طاقتوں پر تکیہ کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت کا ایک ہی راز ہے اور وہ خطے کی سطح پر دفاعی اتحاد اور اداروں کی تشکیل ہے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کی سرکش اور وحشی صیہونی رژیم کو بھی لگام دیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔