حکومت سے باہر رہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کا بطور ایک سیاسی پارٹی بالعموم اور اس کے بانی چیئرمین مسٹر عمران خان کا بالخصوص کسی بھی معاملہ ، چاہے وہ ملکی مفاد کے کسی منصوبے سے متعلق ہو یا حکومتی پارٹی کی کو ئی سیاسی تدبیر، میں تعاون کرناایک انہونی سی بات نظر آتا تھا۔ پھر یہ لوگ جانے کیسے اور کس مصلحت یا منصوبہ بندی کے تحت حکومت سے مذاکرات پر راضی ہو گئے۔ ہمیں یا د ہے کہ یہی پی ٹی آئی اور یہی عمران خان موجودہ حکومت کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے اور اپنی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو یکسر خارج از امکان قرار دیا کرتے تھے۔
ممکن ہے کہ ابتدا میں عمران خان کا خیال ہو کہ شائد وہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقینا انہوں نے اس سلسلہ میں سرتوڑ کوشش بھی ضرور کی ہو گی لیکن یہ تمام سوچیں اور کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔ چار و ناچار انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات تو شروع کر لیے لیکن امید کہیں اور ہی باندھ رکھی اور پھر جب انہیں اس سلسلہ میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آئی تو انہوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنا تھا۔
داد دینی پڑے گی عمران خان کے طرز ندگی اور طرز سیاست کو کہ پورے اعتماد کے ساتھ یو ٹرن بھی لے لیتے ہیں اور پھر جھوٹا بھی اپنے مخالفین کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مذاکرات والے معاملہ میں بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔ یعنی مذاکرات کی اگلی نشست کے لیے جو تاریخ باہمی رضا مندی سے طے ہوئی تھی اس سے قبل ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان بھی خود سے فرما دیا اور پھر اس تمام صورتحال کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈال دی۔
اب یہ تمام کاروائی مسٹر عمران خان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے یا پھر ان کے مشیران میں سے کسی نے ان کے کان میں پھونک ماری ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلہ کو ختم کرنا اتنا ہی احمقانہ فیصلہ ثابت ہو گا جتنا ان کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا یا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومتیں ختم کرنا تھا۔
اس بات کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کو عجلت میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بند کرنے کی غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ ان کے اندر اس سلسلہ میں ایک اور یو ٹرن لے کر مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ سے جوڑنے کی خواہش بھی پیدا ہو چکی ہو۔ پی ٹی آئی کے لیے تو کسی بھی بات پر یوٹرن لے لینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی ان کے ساتھ ایک لمبا عرصہ تک معاملات چلانے کے بعد ان کو ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھ میں آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ جب تک پی ٹی آئی والے ایک یو ٹرن فیصلہ کے تحت دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے پر رضا مندی کا اظہار کریں حکومتی جماعتیں اس سلسلہ میں نئے معیار اور قوائد و ضوابط طے کر چکی ہوں۔ اور ان کے ساتھ وہی کچھ ہو جائے جو اسمبلیوں سے استعفے دینے اور اپنی ہی دو صوبائی حکوتیں ختم کرنے کے نتیجہ میں ہو چکا ہے۔ یعنی کچھ حاصل حصول تو خیر کیا ہونا تھا جو ہاتھ میں تھا وہ بھی ضائع ہو گیا۔
اپنی تمام تر سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کی طرف سے جو پلان بی پیش کیا جا رہا ہے اس میں بھی کچھ نیا نہیں۔ احتجاج ،سڑکیں بلاک کرنااور اسلام آباد پر چڑھائی جیسی کاروائیاں پہلے بھی بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور اب تو شائد حکومت ایسی حرکتوں کو زیادہ مضبوط ہاتھوں کے ساتھ نمنٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی اہم ایونٹ ہونا ہو یا کسی اہم غیر ملکی شخصیت کا دورہ شیڈول ہو یہ عین اس وقت پر اپنے احتجاجی پروگرام کا اعلان کر دیتے ہیں۔ سیاسی مخالفین تو اس قسم کے رویہ کو ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بھی اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ یہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم ہو جانے اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد اب پی ٹی آئی نے پاکستان میں منعقد ہونے والے کرکٹ کے اہم ایونٹ چیمینز ٹرافی کے موقع پر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت نے اب تک جس کامیابی سے ان کے احتجاجی سلسلوں کو ڈیل کیا ہے اس کی روشنی میںتو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس مرتبہ بھی اگر چیمپینز ٹرافی کے موقع پر کسی قسم کی ہلڑ بازی کی کوشش کی گئی تو اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور پی ٹی آئی کو اس مرتبہ بھی الزام تراشی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
پی ٹی آئی اور اس کی اعلیٰ قیادت بشمول مسڑ عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اداروں پر حملہ آور ہونے، گالی گلوچ کرنے ، دھمکیاں دینے اور الزامات لگانے جیسے ہتھکنڈے سیاسی مخالفین کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ردعمل بہت سخت آتا ہے۔ انہیں الطاف بھائی اور میاں نواز شریف کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ملک میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت تو بن گئی نواز شریف کا بھائی وزیر اعظم اور بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی بن گئے لیکن میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش دل میں ہی لیے ہوئے جاتی عمرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ الطاف بھائی بھی ملکی سیاست کا ایک قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
عمران خان اور پی ٹی آئی اگر اب بھی ملکی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگنی پڑے اور پھر مستقبل میں مثبت رویہ رکھنے کا وعدہ کرنا پڑے گا ورنہ جس رفتار سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب یہ خیبر پختونخواہ کی ایک تیسرے درجے کی پارٹی بن کر رہ جائیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: حکومت کے ساتھ مذاکرات اس سلسلہ میں پی ٹی ا ئی اور پھر کرنے کی ہے کہ ا اور اس
پڑھیں:
غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
ابوظہبی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 ) اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پرمتحدہ عرب امارات (یو اے ای) اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے عالمی نشریاتی ادارے نے یواے ای کے اعلی ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ ابوظہبی نے نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ویسٹ بینک کے کسی بھی حصے کی ضم کاری ریڈ لائن ہوگی مگر انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کے بعد کیا اقدامات ہو سکتے ہیں.(جاری ہے)
متحدہ عرب امارات نے 2020 میں ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے اور ممکنہ ردعمل میں اپنا سفیر واپس بلانے پر غور کر رہا ہے تاہم ذرائع کے مطابق مکمل تعلقات ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے یو اے ای چند عرب ممالک میں سے ایک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات ہیں، اور تعلقات کم کرنا ابراہیمی معاہدوں کے لیے بڑا دھچکا ہو گا، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی اہم خارجہ پالیسی کامیابی تھی. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس دوران اسرائیل نے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھی ہے کیونکہ یو اے ای خطے کے اہم تجارتی مرکز اور 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا سب سے اہم عرب ملک ہے یو اے ای نے گذشتہ ہفتے دبئی ایئر شو میں اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کی شرکت روک دی تھی جس سے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اشارہ ملتا ہے. اسرائیلی وزارت دفاع نے اس فیصلے سے آگاہی ظاہر کی لیکن تفصیلات فراہم نہیں کیں یو اے ای کی وزارت خارجہ نے بھی تعلقات کی سطح کم کرنے کے امکان پر کوئی جواب نہیں دیا. نیتن یاہو کی حکومت کے دائیں بازو کے وزرا، بشمول وزیر مالیات بیزل ایل سموٹریک اور قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گور، ویسٹ بینک کو ضم کرنے کے حق میں ہیں یو اے ای نے بار بار اسرائیل کی ویسٹ بینک اور غزہ پر پالیسیوں اور القدس کے مقام الاقصیٰ کے موجودہ حالات پر تنقید کی ہے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ خطے میں استحکام برقرار رہے. اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس ماہ اعلان کیا کہ وہ کبھی بھی فلسطینی ریاست قائم نہیں کریں گے یہ صورتحال خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی پیدا کر سکتی ہے.