پی ٹی آئی رہنما عاطف خان کی عون چوہدری سے ملاقات، پارٹی رہنماؤں کی تنقید، ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عاطف خان کی عون چوہدری سے ملاقات کی تصاویر سامنے آنے پر پارٹی رہنماؤں نے انہیں ہدف تنقید بنالیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئیر رہنما عاطف خان کی ملاقات کی تصویر پارٹی کے واٹس ایپ گروپ پر شیئر کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ عاطف خان کی عون چوہدری سے ملاقات پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سمیت پارٹی رہنماؤں نے اس پر تنقید کی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عاطف خان نے کہا، ’خفیہ نہیں، دن کی روشنی میں سب کے سامنے ملاقات ہوئی۔‘
کراچی جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ.
انکا مزید کہنا تھا کہ ’اسلام آباد کلب میں معمول کے مطابق واک کےلیے گیا تھا۔ عون چوہدری سے آمنا سامنا ہوا تو کسی نے تصویر لی۔‘
ذرائع کے مطابق عاطف خان کی بات سے گروپ میں شامل دیگر رہنماؤں نے اتفاق کیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ورکرز اور قیادت عاطف خان کی اس ملاقات کو ناپسندیدہ سمجھتی ہے۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ عون چوہدری نے ہمارے لیڈر اور ان کی اہلیہ کے خلاف گواہی دی تھی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عون چوہدری سے عاطف خان کی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔