Jasarat News:
2025-11-03@17:56:25 GMT

جامعات میں ایم اے پاس بیوروکریٹ وی سی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

جامعات میں ایم اے پاس بیوروکریٹ وی سی

سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کے ترمیمی قانون کی منظوری پیپلزپارٹی کی تعلیم دشمنی کا تسلسل ہے یہ خاص طور پر شہر کراچی کی جامعات کے لیے تشویشناک ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کی موت ہے۔ یہ قدم نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرے گا بلکہ جامعات کی خود مختاری پر بھی کاری ضرب لگائے گا۔ اس قانون کے ذریعے سندھ کی جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، جو کہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اساتذہ اور طلبہ نے احتجاج کیا ہے بلکہ وفاقی ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بھی سندھ کی نئی پالیسی کو ’’جامعات کے لیے تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایچ ای سی کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نے مشاورت کے بغیر میڈیا کو مطلع کیا، جبکہ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیمات انتظامی بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم، سندھ حکومت کی جلد بازی اور قانون سازی کا طریقہ کار خود کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ قانون بنا کسی مشاورت اور مجلس ِ قائمہ میں بھیجے بغیر منظور کیا گیا، جو کہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ اس وقت سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی اور فپواسا کے مطابق، یہ ترمیمی قانون جامعات کی خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ احتجاجی تحریک جاری رہنے کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کی یونینز نے عدالتی چارہ جوئی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وہ اس بحران کو ’’انتظامی طور پر‘‘ حل کر لیں گے۔ تاہم، صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور سیاسی مداخلت کا یہ تنازع جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ اس متنازع قانون کو ختم کرے اور جامعات کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ کی رائے کو اہمیت دے۔ بیوروکریسی کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنا نہ صرف تعلیمی عمل کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو سندھ کی جامعات علمی زوال اور انتظامی بحران اور کرپشن کا مزید شکار ہو جائیں گی، جس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو سیاست سے بالاتر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جو واقعی تعلیمی بہتری اور اداروں کی ترقی کے ضامن ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی جامعات کے لیے کی خود

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن

پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔

صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔

پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔

بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔

سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔

 اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی جامعات کےکراچی کیمپسز کا منصوبہ سرخ فیتے کی نظر
  • کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ میں ناظم امتحانات کیخلاف قواعد تعیناتی
  • احمد خان چھٹو کراچی انٹر بورڈ میں ناظم امتحانات مقرر
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • سندھ محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی تحقیقات متنازع
  • طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ضلعی افسر سے وضاحت طلب
  • ضیاءالحسن لنجار ایڈووکیٹ ممبر سندھ بار کونسل منتخب ہوگئے
  • پاک فوج دفاع وطن کیلئے پرعزم، کسی بھی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہو گا: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن