Nai Baat:
2025-09-18@11:31:32 GMT

گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ

کیا ہونے جا رہا ہے؟ بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ خان نے مایوسی اور غصہ کے عالم میں ایک بار پھر ملک بھر میں مظاہروں، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی جارحانہ اننگز کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف سے ملیا میٹ پروگرام کا آخری فیصلہ ’’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں‘‘ تقرریاں، تبادلے، ادھر کے جج ادھر، ادھر کے پریشان۔ ان کے خط آنے لگے گویا کہ خط آنے لگے۔ 8 فروری سے قبل بہت کچھ ہو جائے گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا تہیہ 24 سے 27 نومبر جو کوتاہیاں ہوئیں وہ دہرائی نہیں جائیں گی۔ ادھر پی ٹی آئی کے ہارڈ لائنرز کا اعلان 8 فروری اور اس کے بعد کے دنوں میں ملک بھر دمادم مست قلندر ہو گا۔ انحصار صوابی کے جلسہ پر ہے۔ لاکھوں لوگ آگئے تو اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔ بد قسمتی، عدم استحکام اس وقت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب 12 اور 13 فروری کو ترکی کے صدر طیب اردوان اپنے ساتھ 65 رکنی سرمایہ کاروں کا وفد لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ 19 فروری سے چیمپئنز ٹرافی کے میچز شروع ہوں گے۔ ہنگاموں کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔ کیا پیغام جائے گا؟ خان کو اس کی پروا نہیں، ان کا مقصد صرف اپنی رہائی اور دوبارہ اقتدار میں آنا ہے، مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم جس جوش سے آئی تھی کچھ حاصل نہ ہونے پر بھاگ گئی۔ حکومتی ارکان آوازیں دیتے رہ گئے۔ وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بھی پیشکش کی جو بیرسٹر گوہر نے مسترد کردی۔ مذاکرات سے پہلے ہی نتائج کا علم تھا۔ ’’ہاں مگر اتنا ہوا یہ لوگ پہچانے گئے‘‘ اس دوران حکومتی ارکان سے مل کر ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار کرا لی۔ کارکردگی گیڈروں جیسی آوازیں، نعرے بازی اور بائیکاٹ ایک کہانی ختم دوسری شروع۔ 27 نومبر گنڈا پور کو لے ڈوبا۔ بی بی سخت ناراض پشاور میں قیام کے دوران ہی سوچ لیا تھا کہ ’’جیل جا کر شکایت لاواں گی‘‘ شومئی قسمت 190 ملین پائونڈ کیس میں انہیں بھی 7 سال قید کی سزا ہوگئی۔ جیل پہنچتے ہی میاں کے کان بھرے، گنڈا پور ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ادھر بھی ہے ادھر بھی، کرپشن میں ملوث ارکان کی خریداری میں ماہر ہے۔ ’’ہمیں سزا کرانے میں اسی کا ہاتھ ہے‘‘پیارے خان صاحب غصہ سے تمتما اور تنتنا اٹھے گنڈاپور کو صوبہ کی صدارت سے فارغ کردیا اور ان کے مخالف جنید اکبر کو صدر بنا دیا با خبر ذرائع کے مطابق گنڈا پور نے تھوڑی سی غیرت دکھائی، جیب سے استعفیٰ نکالا اور خان کے حوالے کردیا۔ خان نے استعفیٰ جیب میں رکھ لیا۔ لوگوں نے کہا صدارت گئی تھی ’’وزارت اعلیٰ بھی گئی تیمور کے گھر سے‘‘ وزارت اعلیٰ کے لیے رابطے ہونے لگے۔ عاطف خان کو 35 ارکان کی حمایت حاصل مگر گنڈا پور کا گروپ بھی خاصا مضبوط ہے۔ فی الحال خطرہ نہیں بندہ خطرناک ہے۔ چھیڑ خانی کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گا۔ خان مجبوراً پھر سے جارحیت پر اتر آئے۔ 9 مئی کے بعد 8 فروری مگر اب تو ان کے اپنے صوبہ کے عوام مایوس ہیں۔ خان اپنی کمپرومائز قیادت سے پریشان ہیں۔ گنڈا پور کے بعد بیرسٹر گوہر کی خبریں بھی زیر گردش ہیں وہ ہارڈ لائنرز کو آگے لا رہے ہیں۔ جنید اکبر کی لاٹری نکل آئی وہ صوبائی صدر کے علاوہ قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ عالیہ حمزہ پنجاب کی صدر قرار پائیں، سب نامزدگیاں، پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ ہو تو ایسی ڈکٹیٹریاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خان صاحب ذہین فطین جیل میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی دو منٹ کی ملاقات اور اسے دو ڈھائی گھنٹے کے مذاکرات ظاہر کرنے کے شوق نے لاکھوں کا ساون تباہ کردیا۔ خان نے اوپر والوں سمیت کسی سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم دے کر اپنے سارے راستے بند کرلیے۔ تنظیمی تبدیلیوں سے پارٹی کی گرتی ساکھ رک سکے گی۔ جواب نفی میں ہے تاہم انہوں نے طاقتوروں کو بھی آخری فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ آخری فیصلہ اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں بھی خاموش رہے گی۔ رابطے نہ مذاکرات بلکہ حکومت سے بھی کہا جائے گا کہ وہ ابلتے جمہوری جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اور کوئی رابطہ نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر اوٹ پٹانگ پروپیگنڈے کا توڑ بھی کرلیا گیا۔ خان کے دور اقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے پیکا ایکٹ لانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ صحافیوں پر گولیاں تک چلائی گئیں، اشتہارات کے کروڑوں روپے روک لیے گئے جس سے پورا میڈیا بحران کا شکار ہوا۔ سیکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے۔ اپوزیشن پر قید و بند کی سختی بڑھ گئیں۔ موجودہ حکومت نے اسی پیکا ایکٹ میں فیک نیوز اور ملک دشمنی پروپیگنڈے کی روک تھام کیلئے 3 سال قید کا مرچ مسالا ڈال کر باقاعدہ قانون بنا دیا۔ بلا شبہ قانون سازی کرنے والوں سے معمولی غلطی ہوئی۔ بل ایوانوں میں لانے سے پہلے مسودہ قانون پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور اخباری مالکان کی ملک گیر تنظیم سے مشاورت کرلی جاتی اور ان کی تجاویز بھی شامل کرلی جاتیں تو صحافیوں کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پیکا ایکٹ بلا شبہ باہر اور اندر بیٹھے نام نہاد صحافیوں اور ڈالر خور اہل یوتھ کی ملک دشمن سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے از بس ضروری ہے۔ صحافیوں کو احساس ہے کہ ملک کے ایک بڑے لیڈر کے انتقال اور تدفین جیسی خبریں دینے والے ان کے ہمراہی نہیں ہوسکتے۔ کون لوگ ہیں انہیں حکومت اور ادارے بخوبی جانتے ہیں لیکن بلا مشاورت پیکا ایکٹ سے خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ نعرے لگنے لگے ہیں کہ صحافیوں سے غیر ضروری پنگا ہرگز نہیں چنگا، بہتر ہوگا کہ وفاقی وزیر قانون، وزیر اطلاعات اور دھیمی گفتگو کرنے والے رانا ثناء اللہ صحافیوں کو بلا کر ان سے مشاورت کریں اگر پیکا ایکٹ میں قابل اعتراض شقوں کی نشاندہی کی جائے تو انہیں ترامیم کے ذریعہ ختم کردیا جائے۔ صحافیوں کی اکثریت محب وطن ہے۔ فیک نیوز کی مخالف ہے۔ انہیں ایک ہی پلڑے میں نہ تولا جائے۔ انہیں اعتماد میں لینے سے صحافیوں کے دل اور حکومت کے دن بڑھ جائیں گے۔ 8 فروری کے موقع پر صحافتی تنظیموں کے مظاہرے نیک شگون نہیں۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے کپتان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بنیادی اختلاف موجودہ سسٹم ہے۔ گود میں لے کر ملک تباہ کرنے کے دن گزر گئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا لیکن خان نے ابھی تک سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سسٹم اور حقائق کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار ان کے آخری قلعہ خیبر پختونخوا میں بھی دراڑیں پڑنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی حق اور سچ کا پرچار کیا جاسکتا ہے۔ کاش سلمان اکرم راجہ خان کو یہ بات سمجھا سکیں، ایسا نہ ہو سکا تو کہانی ختم سختیاں بڑھیں گی۔ بقول فیصل وائوڈا خان 8 فروری کے بعد نو دس مہینے جیل میں ہی عیش کریں گے۔ تاہم حفیظ اللہ نیازی کو دور افق پر امید کی کرن نظر آرہی ہے ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ بعد خان کو چیک لسٹ پیش کی جائے گی خان نے شرائط قبول کرلیں تو باہر ہوں گے سرنڈر پر نجات ورنہ غیب کا علم اللہ کو ہے تیاریاں مکمل ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: آخری فیصلہ پیکا ایکٹ گنڈا پور جائے گا اور اس کے بعد خان کو

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار

بنچ نے کہا کہ اس شق پر روک لگا دی گئی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اسکے مطابق کوئی حکم جاری کرسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج پورے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو معطل کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن قانون کی کچھ دفعات پر روک لگانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی سربراہی میں بنچ نے یہ حکم سنایا۔ بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ نے محسوس کیا کہ قانون کی تمام شقوں کو روکنے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔

بنچ نے کہا کہ اس نے اس شق پر روک لگا دی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اس کے مطابق کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم نے پایا ہے کہ کلکٹر کو جائیداد کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت دینا اختیارات کی علاحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹیو کو شہریوں کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے ہدایت کی ہے کہ جب تک نامزد افسر کی طرف سے نتائج پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا، جائیداد کے قبضے یا حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بنچ نے کہا کہ کسی شخص کو وقف کے طور پر اپنی جائیداد وقف کرنے سے پہلے پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے کی شرط پر اس وقت تک روک لگا دی گئی ہے جب تک ریاستی حکومت یہ فیصلہ کرنے کے لئے قوانین نہیں بناتی کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے یا نہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس انتظام کے بغیر یہ انتظام طاقت کے من مانی استعمال کو فروغ دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • شہر میں قائم پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ
  • بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
  • آخری متاثرہ شخص کو ریلیف دینے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی، مریم نواز
  • سدرہ امین نے ویمنز ون ڈے میں دو ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرلیا
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟
  • پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم
  • سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار