Nai Baat:
2025-04-25@09:21:46 GMT

گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ

کیا ہونے جا رہا ہے؟ بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ خان نے مایوسی اور غصہ کے عالم میں ایک بار پھر ملک بھر میں مظاہروں، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی جارحانہ اننگز کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف سے ملیا میٹ پروگرام کا آخری فیصلہ ’’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں‘‘ تقرریاں، تبادلے، ادھر کے جج ادھر، ادھر کے پریشان۔ ان کے خط آنے لگے گویا کہ خط آنے لگے۔ 8 فروری سے قبل بہت کچھ ہو جائے گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا تہیہ 24 سے 27 نومبر جو کوتاہیاں ہوئیں وہ دہرائی نہیں جائیں گی۔ ادھر پی ٹی آئی کے ہارڈ لائنرز کا اعلان 8 فروری اور اس کے بعد کے دنوں میں ملک بھر دمادم مست قلندر ہو گا۔ انحصار صوابی کے جلسہ پر ہے۔ لاکھوں لوگ آگئے تو اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔ بد قسمتی، عدم استحکام اس وقت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب 12 اور 13 فروری کو ترکی کے صدر طیب اردوان اپنے ساتھ 65 رکنی سرمایہ کاروں کا وفد لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ 19 فروری سے چیمپئنز ٹرافی کے میچز شروع ہوں گے۔ ہنگاموں کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔ کیا پیغام جائے گا؟ خان کو اس کی پروا نہیں، ان کا مقصد صرف اپنی رہائی اور دوبارہ اقتدار میں آنا ہے، مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم جس جوش سے آئی تھی کچھ حاصل نہ ہونے پر بھاگ گئی۔ حکومتی ارکان آوازیں دیتے رہ گئے۔ وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بھی پیشکش کی جو بیرسٹر گوہر نے مسترد کردی۔ مذاکرات سے پہلے ہی نتائج کا علم تھا۔ ’’ہاں مگر اتنا ہوا یہ لوگ پہچانے گئے‘‘ اس دوران حکومتی ارکان سے مل کر ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار کرا لی۔ کارکردگی گیڈروں جیسی آوازیں، نعرے بازی اور بائیکاٹ ایک کہانی ختم دوسری شروع۔ 27 نومبر گنڈا پور کو لے ڈوبا۔ بی بی سخت ناراض پشاور میں قیام کے دوران ہی سوچ لیا تھا کہ ’’جیل جا کر شکایت لاواں گی‘‘ شومئی قسمت 190 ملین پائونڈ کیس میں انہیں بھی 7 سال قید کی سزا ہوگئی۔ جیل پہنچتے ہی میاں کے کان بھرے، گنڈا پور ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ادھر بھی ہے ادھر بھی، کرپشن میں ملوث ارکان کی خریداری میں ماہر ہے۔ ’’ہمیں سزا کرانے میں اسی کا ہاتھ ہے‘‘پیارے خان صاحب غصہ سے تمتما اور تنتنا اٹھے گنڈاپور کو صوبہ کی صدارت سے فارغ کردیا اور ان کے مخالف جنید اکبر کو صدر بنا دیا با خبر ذرائع کے مطابق گنڈا پور نے تھوڑی سی غیرت دکھائی، جیب سے استعفیٰ نکالا اور خان کے حوالے کردیا۔ خان نے استعفیٰ جیب میں رکھ لیا۔ لوگوں نے کہا صدارت گئی تھی ’’وزارت اعلیٰ بھی گئی تیمور کے گھر سے‘‘ وزارت اعلیٰ کے لیے رابطے ہونے لگے۔ عاطف خان کو 35 ارکان کی حمایت حاصل مگر گنڈا پور کا گروپ بھی خاصا مضبوط ہے۔ فی الحال خطرہ نہیں بندہ خطرناک ہے۔ چھیڑ خانی کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گا۔ خان مجبوراً پھر سے جارحیت پر اتر آئے۔ 9 مئی کے بعد 8 فروری مگر اب تو ان کے اپنے صوبہ کے عوام مایوس ہیں۔ خان اپنی کمپرومائز قیادت سے پریشان ہیں۔ گنڈا پور کے بعد بیرسٹر گوہر کی خبریں بھی زیر گردش ہیں وہ ہارڈ لائنرز کو آگے لا رہے ہیں۔ جنید اکبر کی لاٹری نکل آئی وہ صوبائی صدر کے علاوہ قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ عالیہ حمزہ پنجاب کی صدر قرار پائیں، سب نامزدگیاں، پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ ہو تو ایسی ڈکٹیٹریاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خان صاحب ذہین فطین جیل میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی دو منٹ کی ملاقات اور اسے دو ڈھائی گھنٹے کے مذاکرات ظاہر کرنے کے شوق نے لاکھوں کا ساون تباہ کردیا۔ خان نے اوپر والوں سمیت کسی سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم دے کر اپنے سارے راستے بند کرلیے۔ تنظیمی تبدیلیوں سے پارٹی کی گرتی ساکھ رک سکے گی۔ جواب نفی میں ہے تاہم انہوں نے طاقتوروں کو بھی آخری فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ آخری فیصلہ اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں بھی خاموش رہے گی۔ رابطے نہ مذاکرات بلکہ حکومت سے بھی کہا جائے گا کہ وہ ابلتے جمہوری جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اور کوئی رابطہ نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر اوٹ پٹانگ پروپیگنڈے کا توڑ بھی کرلیا گیا۔ خان کے دور اقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے پیکا ایکٹ لانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ صحافیوں پر گولیاں تک چلائی گئیں، اشتہارات کے کروڑوں روپے روک لیے گئے جس سے پورا میڈیا بحران کا شکار ہوا۔ سیکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے۔ اپوزیشن پر قید و بند کی سختی بڑھ گئیں۔ موجودہ حکومت نے اسی پیکا ایکٹ میں فیک نیوز اور ملک دشمنی پروپیگنڈے کی روک تھام کیلئے 3 سال قید کا مرچ مسالا ڈال کر باقاعدہ قانون بنا دیا۔ بلا شبہ قانون سازی کرنے والوں سے معمولی غلطی ہوئی۔ بل ایوانوں میں لانے سے پہلے مسودہ قانون پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور اخباری مالکان کی ملک گیر تنظیم سے مشاورت کرلی جاتی اور ان کی تجاویز بھی شامل کرلی جاتیں تو صحافیوں کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پیکا ایکٹ بلا شبہ باہر اور اندر بیٹھے نام نہاد صحافیوں اور ڈالر خور اہل یوتھ کی ملک دشمن سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے از بس ضروری ہے۔ صحافیوں کو احساس ہے کہ ملک کے ایک بڑے لیڈر کے انتقال اور تدفین جیسی خبریں دینے والے ان کے ہمراہی نہیں ہوسکتے۔ کون لوگ ہیں انہیں حکومت اور ادارے بخوبی جانتے ہیں لیکن بلا مشاورت پیکا ایکٹ سے خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ نعرے لگنے لگے ہیں کہ صحافیوں سے غیر ضروری پنگا ہرگز نہیں چنگا، بہتر ہوگا کہ وفاقی وزیر قانون، وزیر اطلاعات اور دھیمی گفتگو کرنے والے رانا ثناء اللہ صحافیوں کو بلا کر ان سے مشاورت کریں اگر پیکا ایکٹ میں قابل اعتراض شقوں کی نشاندہی کی جائے تو انہیں ترامیم کے ذریعہ ختم کردیا جائے۔ صحافیوں کی اکثریت محب وطن ہے۔ فیک نیوز کی مخالف ہے۔ انہیں ایک ہی پلڑے میں نہ تولا جائے۔ انہیں اعتماد میں لینے سے صحافیوں کے دل اور حکومت کے دن بڑھ جائیں گے۔ 8 فروری کے موقع پر صحافتی تنظیموں کے مظاہرے نیک شگون نہیں۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے کپتان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بنیادی اختلاف موجودہ سسٹم ہے۔ گود میں لے کر ملک تباہ کرنے کے دن گزر گئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا لیکن خان نے ابھی تک سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سسٹم اور حقائق کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار ان کے آخری قلعہ خیبر پختونخوا میں بھی دراڑیں پڑنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی حق اور سچ کا پرچار کیا جاسکتا ہے۔ کاش سلمان اکرم راجہ خان کو یہ بات سمجھا سکیں، ایسا نہ ہو سکا تو کہانی ختم سختیاں بڑھیں گی۔ بقول فیصل وائوڈا خان 8 فروری کے بعد نو دس مہینے جیل میں ہی عیش کریں گے۔ تاہم حفیظ اللہ نیازی کو دور افق پر امید کی کرن نظر آرہی ہے ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ بعد خان کو چیک لسٹ پیش کی جائے گی خان نے شرائط قبول کرلیں تو باہر ہوں گے سرنڈر پر نجات ورنہ غیب کا علم اللہ کو ہے تیاریاں مکمل ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: آخری فیصلہ پیکا ایکٹ گنڈا پور جائے گا اور اس کے بعد خان کو

پڑھیں:

متنازع کینالز منصوبے پرپیپلزپارٹی کے تحفظات، وفاقی حکومت کا مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ

 

کمیٹی اسحاق ڈار کی سربراہی میں تشکیل دی جائے گی، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ اورآبی وزرعی ماہرین کو شامل کیے جانے کا امکان، وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے مذاکراتی کمیٹی کو حتمی شکل دی جائے گی

شہباز شریف جلد صدر مملکت اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات بھی کریں گے،حکومتی کمیٹی پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر سے رابطہ کرکے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی (ذرائع)

وفاقی حکومت نے دریائے سندھ پر چھ کینالز کی تعمیر کے منصوبے پر پیپلز پارٹی اور دیگر کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ایک اعلی سطح کی مذاکراتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے چھ کینالز نکالنے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلیے اسحاق ڈار کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس کمیٹی میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل و توانائی احسن اقبال اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر شامل ہوں گے ۔کمیٹی میں آبی و زرعی ماہرین کو شامل کیا جانے کا امکان بھی ہے ۔ وفاقی حکومت کی یہ کمیٹی پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر سے رابطہ کرکے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی۔وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے مذاکراتی کمیٹی کو حتمی شکل دی جائے گی اور شہباز شریف اس معاملے پر جلد صدر مملکت آصف علی زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی شیڈول طے ہوتے ہی ملاقات بھی کریں گے جس میں پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے لیے سیاسی راستہ نکالنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔حکومتی کمیٹی اس معاملے پر دیگر جماعتوں سے بھی مذاکرات کرے گی اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان بیٹھکیں کراچی اور اسلام آباد میں ہوں گی۔مسلم لیگ ن کے اہم رہنما نے بتایا کہ دریائے سندھ پر چھ کینالز منصوبے کی تعمیر پر پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں کے تحفظات اور صوبے میں احتجاج کے معاملے پر مسلم لیگ ن کی قیادت میں گزشتہ دنوں تفصیلی مشاورت ہوئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس مشاورت میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف میں طے ہواتھا کہ اس معاملے کومذاکرات سے حل کیا جائے گا۔ جس کی رشنی میں مسلم ن کی وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی اور دیگر سے رابطوں کے لیے ایک بااختیار مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔لیگی رہنما کے مطابق کمیٹی میں ارکان کو شامل کرنے کی منظوری وزیراعظم دیں گے ۔ وفاقی حکومت کی کمیٹی مذاکرات کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطے کرکے ملاقات کا وقت طے کرے گی۔مذاکرات میں کینالز منصوبے کی افادیت سے آگاہ کیا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے تحفظات معلوم کیے جائیں گے جبکہ اس منصوبے کی تمام پہلوؤں سے فنی جانچ بھی کی جائے گی اور معاملے کے حل کیلیے مشترکہ لائحہ عمل دے کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن اس منصوبے کی پر پارلیمان کو بھی اعتماد میں لے گی۔ وزیراعظم ضرورت پڑنے پر اس منصوبے پر مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بھی بلائیں گے ۔مسلم لیگ ن نے اس منصوبے کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کرنے پر غور کررہی ہے ۔ اس منصوبے پر تحفظات کو دور کرنے کے لیے مذاکرات جلد شروع ہونے کا امکان ہے ۔مسلم لیگ ن اس منصوبے پر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اور مزید لائحہ عمل حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بڑی خبر! مزید یوٹیلیٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ ، کن ملازمین کو فارغ کیا جائے گا؟
  • قومی ایئر لائن کے51 سے 100 فیصد شیئرز فروخت کرنے کا فیصلہ
  • قومی ایئر لائن کا 100فیصد شیئرز فروخت کرنے کا فیصلہ
  • پہلگام فالس فلیگ: بھارتی جارحانہ اقدامات کا منہ توڑ جواب دینے کےلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری
  • پہلگام حملہ، کشمیری مسلمان بھارتی صحافیوں کی جانبدارانہ رپورٹنگ پر سراپا احتجاج
  • شاداب خان کا کارنامہ، پی ایس ایل میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے اسپنر بن گئے
  • ریلوے پولیس کو دیگر فورسز کی طرح ڈیجٹلائز کرنے کا فیصلہ
  • پی آئی اے کی نجکاری ،حکومت کا ایک بار پھر درخواستیں طلب کرنے کا فیصلہ
  • ریلویز پولیس کو دیگر فورسز کی طرح ڈیجیٹلائز کرنے کا فیصلہ
  • متنازع کینالز منصوبے پرپیپلزپارٹی کے تحفظات، وفاقی حکومت کا مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ