واشنگٹن حادثے کے پیچھے کوئی پیغام تو نہیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
ٹفنی نامی ایک امریکی لڑکی امریکہ کے اندر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے ایک جہاز میں سفر کر رہی تھی۔ طیارہ فضا میں بلندی پر پہنچنے اور فضائی سفر ہموار ہونے کے چند منٹ بعد ہی وہ اپنی نشست سے یہ کہہ کر چیختی چلاتی اٹھی کہ یہاں بعض شیطانی طاقتیں موجود ہیں۔ وہ انسان کے روپ میں ہیں مگر انسان نہیں ہیں۔ لڑکی بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ فضائی عملے نے اسے سمجھا بجھا کر اپنی نشست پر بیٹھنے کیلئے پورا زور لگا دیا لیکن وہ نہ مانی۔ اسی جہاز میں موجود ایک مسافر نے اس کی ویڈیو بنائی اور اپ لوڈ کر دی۔ ٹفنی نے کہا کہ بہت جلد ہم سب مارے جائیں گے۔ کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا، اس کے اس فقرے نے مسافروں کی تشویش میں اضافہ کر دیا۔ سب جہاز کے خیریت سے لینڈ کرنے کی دعائیں مانگنے لگے۔ جہاز فضا میں تباہ نہ ہوا اور اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد بحفاظت لینڈ کر گیا۔ ٹفنی کو لینڈ کرنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ تحقیقات کے مطابق وہ کوئی عام سی یا مخبوط الحواس ذہنی مریضہ نہ تھی بلکہ تعلیم یافتہ اور ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی میں ذمہ دار عہدے پر فائز تھی۔ کافی عرصہ زیر حراست رکھنے کے بعد اسے رہا تو کر دیا گیا لیکن اسے ڈرا دھمکا کر اور انڈر پریشر رکھ کر اپنا بیان بدلنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ائیرلائن نے بھی مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے۔ ٹفنی نے جس شخص کو انسان کے روپ میں شیطانی طاقت کہا وہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا یا غائب کر دیا گیا، بعد کے واقعات میں اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا، رہا ہونے کے بعد ٹفنی نے اپنے قریبی افراد کو بتایا کہ اس کا پہلا بیان درست تھا جبکہ زیر حراست بیان صرف اپنی جان چھڑانے کے لئے دیا گیا کہ اس نے یہ سب کچھ ’’بس یونہی‘‘ کہا تھا۔ آئیے یہاں رک کر ایک اور جانب نظر ڈالتے ہیں۔ امریکہ کا ایک F35 طیارہ فضا میں تباہ ہو جاتا ہے جس کے لئے روٹین کے مطابق کمیشن بن جاتا ہے اور اس کی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے، اس کے کچھ ہی روز بعد ایک اور مسافر طیارہ ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا جاتا ہے اور 67افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں جن میں تین افراد کا تعلق روس سے بتایا جاتا ہے۔ امریکی وقت کے مطابق رات پونے نو بجے یہ حادثہ پیش آیا۔ جہاز قریبی نیم منجمد دریا میں جاگرا، جہاں ہائی پوتھرمیا یعنی ٹھٹھر جانے سے تمام مسافر ہلاک ہو گئے، پہلے ریسکیو آپریشن شروع ہوا جس میں تاخیر کی اطلاعات ہیں بعدازاں اسے ریکوری آپریشن کا نام دے دیا گیا۔
جہازوں کے حادثات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ یہ فضا میں تباہ ہوتے ہیں۔ کبھی ٹیک آف کے فوراً بعد کسی فنی خرابی کے سبب کبھی لینڈنگ سے کچھ دیر قبل لیکن اس حادثے میں ایک بات غیرمعمولی ہے۔ وہ امریکی ہیلی کاپٹر کا جہاز سے اس وقت ٹکرا جانا ہے جب ٹھیک دو منٹ بعد اسے لینڈ کر جانا تھا۔ کچھ عجب نہیں جائے حادثہ سے ملنے والے بلیک باکسز سے ملنے والی اطلاعات کچھ اور ہوں اور تحقیقاتی رپورٹ میں اسے کچھ اور بیان کیا جائے اور سب کچھ ’’فنی خرابی‘‘ کے سمندر میں غرق ہو جائے۔ اس بات کا امکان اس لئے بھی پایا جاتا ہے کہ اگر دال میں کچھ کالا تھا تو اسے دنیا کی نظروں سے چھپانے والے اپنے اس ہنر میں یکتا ہیں۔ وہ دنیا کو کس مہارت سے یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ وہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں، انہیں تباہ کرنے کیلئے عراق کا کوئی ایک پلانٹ ایک ذخیرہ ایک شہر ہی نہیں پورا عراق تباہ کرنا اور پھر اس کے تیل پر قبضہ بھی ضروری ہے۔
ایک بات تو عام فہم ہے کہ جہاز لینڈ کرنے کیلئے کافی نیچے آچکا تو اس وقت امریکی ہیلی کاپٹر زمین سے اوپر تھا۔ جہاز کے لینڈ کرنے کے وقت روشنیاں جل رہی تھیں اور درجنوں تھیں۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھا ہوا ہر شخص انہیں بہ آسانی دیکھ سکتا تھا اور خاص طور پر ہیلی کاپٹر کا پائلٹ تو بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ جہاز کی رفتار اور اترنے کا زاویہ کیا ہے۔ ہیلی کاپٹر کو جہاز سے دور رکھنے کے کئی آپشن موجود تھے جن میں سے کسی پر کام نہ کیا گیا، اسے واپس زمین پر اتارا جا سکتا تھا۔ دائیں یا بائیں موڑا جا سکتا تھا، دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی آپشن پر عمل نہ کرنے کا دوسرا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔ کیا اس ہیلی کاپٹر اور اس کے عملے کا مشن ہی یہی تھا لہٰذا وہ اس کے مطابق عمل پیرا رہے بالکل اسی طرح جیسے مشن پر مامور افراد نے اپنے اپنے جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے، جس طرح ان جہازوں کے پائلٹوں کو ذہنی طور پر ایک ’’عظیم خدمت‘‘ انجام دینے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ وہ سب کچھ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کیلئے بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ ’’ملک کے عظیم تر مفاد‘‘ میں دنیا میں بہت کچھ کیا گیا ہے جو منظرعام پر آتا ہے تو عقل انسانی اسے مشکل ہی سے تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتی ہے لیکن وہ سچ ہوتا ہے۔
جن اہم سوالوں کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آرہا اور شاید آئندہ بھی نہ آسکے وہ کچھ یوں ہیں۔ جہاز میں سوار تین روسی کون تھے۔ وہ سویلین تھے یا فوجی یا پھر کوئی انڈرکور شخصیات جنہیں راستے میں ختم کرنا ضروری تھا۔ کیا جہاز میں کوئی اور بھی ایسی شخصیت موجود تھی جس کی جان لینا ضروری تھا۔ جہاز کو مار گرانے کے اور بھی طریقے تھے لیکن اس صورت میں دشمن کو سامنے لانا آسان ہوتا ہے۔ میزائل حملہ ہو تو میزائل کی ساخت، رفتار، کس فاصلے سے داغا گیا، ان باتوں سے کہانی کھل جاتی ہے۔ امریکی صدر کی حادثے کے بعد پریس کانفرنس بہت اہم ہے۔ وہ برانگیخت نظر آئے۔ یہ حواس باختگی کی پہلی منزل ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے لیکن ایک پیغام دوسری طرف سے تو نہیں دیا گیا کہ ہم بھی کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔ جہاز کا سفر دنیا میں محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے۔ سڑکیں کتنی بھی محفوظ ہوں، حادثات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سڑک پر ہدف کو نشانہ بنانا قدرے آسان اور سستا کام ہے لیکن اب فضائی سفر بھی محفوظ نہیں رہے، بالخصوص ان کے جن کی دنیا میں اپنے عہدے اپنی متنازع شخصیت یا اپنی کاروباری رقابت، رقابتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتیں ایسی شخصیات عموماً اپنے ذاتی جیت طیارے استعمال کرتی ہیں، کچھ کو اپنے عہدوں کے باعث سرکاری یا فوجی جہاز استعمال کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی فلیٹ بہت محفوظ ہے اور بحیثیت امریکی صدر اب وہ فوجی جہاز بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ان جہازوں کو فضا میں ہی پرواز کرنا ہے۔ ٹیک آف ہو یا لینڈنگ کچھ بھی خطرے سے خالی نہیں، ان کی ڈیپ سٹیٹ سے لڑائی، بچوں کی لڑائی کی طرح اچانک ختم نہیں ہوگی۔ خدشات پیدا ہو چکے ہیں کہ خطرات میں اضافہ ہو چکا ہے، بالخصوص جب امریکی صدر نے کہا کہ وہ صدر کینیڈی کے قتل کا راز فاش کر دیں گے ۔معاملہ کچھ بھی ہو لوگ امریکی لڑکی ٹفنی کو آج پھر یاد کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے دنیا میں کے مطابق سکتا تھا جہاز میں جاتا ہے جا سکتا دیا گیا لینڈ کر کر دیا کے بعد
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی کو عہدے کی کوئی ضرورت نہیں، اسد عمر
لاہور:سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ لیڈر شپ کا شاید اس لیے لگتا ہے کہ تھوڑا سا وہ آگے پیچھے ہو گیا تھا ، پہلے جنید اکبر کے پاس ذمے داری تھی، پھر ذمے داری علی امین گنڈاپورکے پاس چلی گئی، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ذمے داری عمر ایوب اور سلمان اکرم راجہ جائنٹلی شیئر کریں گے تو اس کیلیے سمبولکلی یہ کہتے ہیں کہ عمران خان خود ہی لیڈ کریں، عہدے کی سچی بات ہے کہ میری تو سمجھ میں نہیں آئی ہے، عمران خان کو کوئی عہدے کی ضرورت نہیں، سب کوپتہ ہے کہ پارٹی کے لیڈر وہ ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ( ن) لیگ میں بہت بڑا ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ وہاں پہ دونوں جو کیمپس تھے ان دونوں کو لیڈ کرنے والا خاندان ہی تھا، مزاحمتی گروپ کو نواز شریف اور مریم لیڈ کر رہے تھے اور مفاہمتی گروپ کو شہباز شریف لیڈ کر رہے تھے،آپس میں ٹرسٹ کا کوئی فقدان نہیں تھا۔
ماہر معیشت خرم حسین نے کہا کہ حکومت کو ریلیف تو دینا پڑے گا جس حد تک ٹیکس کا بوجھ صرف سیلیرڈ کلاس نہیں بلکہ فارمل سیکٹر کی بزنسز ہیں ان کے اوپر جس حد تک بڑھ چکا ہے یہ اسسٹین ایبل نہیں ہے تو ایک سال کے لیے تو انہوں نے لگادیا تھا یہ ٹیکس، کوائٹلی ہم لوگوں کو یہ بتایا کرتے تھے گورنمنٹ والے کہ ایک سال کی بات ہے، معیشت ایک بار سٹیبلائز ہو جائے تو اس کے بعد ان چیزوں کوہم ریشنلائز کر دیں گے آگے جا کہ، اب وہ وقت آ گیا ہے، ایک منہ سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ سٹیبلائزیشن ہو چکی ہے، اب ان کو کرنا تو پڑے گا، اگر ریلیف سیلیرڈ کلاس کو دیا جائے گا تو اس کے لیے ریسورسس کہیں نہ کہیں سے اور ان کو لانا پڑیں گی، اب یہ ان کا کام ہے کہ کوئی تگڑاقسم کا ریوینو پلان لیکر آئیں۔
ماہر معیشت عزیر یونس نے کہا کہ ٹیکس کلیکشن میں جو مین ایشوہسٹوریکلی رہا ہے وہ ویسٹڈ انٹرسٹ گروپس ہیں بلخصوص ریٹیل، ایگریکلچراور ریئل اسٹیٹ سائڈ پہ جو کہ اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتے اس ملک کی ترقی میں اس ملک کی خوشحالی میں، اب سوال جو ہے وہ یہ ہونا چاہیے پاکستان میں کہ اگر بھارت کی جنگ کے اندر، پاکستان کے دفاع کیلیے جو دفاع کیا گیا اس کا دفاع فارمل بزنس، سیلیرڈ کلاس ، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیلر کا برابر دفاع ہوتا ہے، تو اگر دفاع برابر ہوتا ہے تو دفاع کی ریسورسس جو ہیں وہ صرف ایک یا دو طبقات دیں تو یہ نامناسب بات ہے، میں خرم سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیلرڈ کلاس اور فارمل بزنس کو ریلیف دیا جائے اور وہ طبقات جو ہسٹوریکلی ریزسٹ کرتے آئے ہیں انھیں کہا جائے کہ اگر آپ کا بھی دفاع برابری کے طور پر ہونا ہے توآپ کو بھی پیسے دینے پڑیں گے۔