پاکستانی فورسز کا آپریشن، ہلاک دہشتگردوں میں افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
ویب ڈیسک:جنوری کے آخر میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارے جانے والے فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں میں افغانستان کے صوبے باغدیس کےنائب گورنر مولوی غلام محمد احمدی کے بیٹے کے شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
30اور 31 جنوری کی درمیانی رات ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں فتنہ الخوارج کے 4 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق ہلاک دہشتگردوں میں افغانستان کے صوبے باغدیس کے نائب گورنرمولوی غلام محمد احمدی کا بیٹا بھی شامل تھا جس کی شناخت بدر الدین عرف یوسف کے نام سے ہوئی.
ججز کی ٹرانسفر آئین کے تحت ہوئی، مزید صوبوں سے بھی آنے چاہئیں: چیف جسٹس
ذرائع نے بتایا کہ ہلاک دہشتگردوں سے امریکی ساختہ جدید نائٹ ویژن سمیت ایم 16 اے فور اور ایم 24 اسنائپر رائفلز ملی ہیں۔
پاکستان نے کئی بار افغان حکام کو لاش وصولی کا کہا ہے لیکن افغان سائیڈ سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بدر الدین نے پہلے افغان طالبان کے تربیتی مرکز میں تربیت حاصل کی اور پھرفتنہ الخوراج کاحصہ بنا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور فتنہ الخوارج کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش ہوگیا اور اس کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے ہیں، افغان طالبان کی قیادت اب بھی افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں بشمول فتنہ الخوارج کے ساتھ گہرے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔
مریم نواز کی محنت سے پنجاب میں بہتری نظر آ رہی ہے: نواز شریف
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو
امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔