پہلی بیوی کو طلاق، پراپرٹی یا کچھ اور؛ گھر کی دہلیز پر شہری کے قتل کا معاملہ الجھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
لاہور:
شہری کو گھر کی دہلیز پر قتل کرنے کا معاملہ الجھ گیا، پولیس نے پہلی بیوی کو طلاق، پراپرٹی یا دیگر معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفتیش شروع کردی۔
پولیس کے مطابق سلطان ٹاؤن چوہنگ کے علاقے میں ایک شخص کو اس کی گاڑی میں گھر کی دہلیز پر قتل کر دیا گیا ۔ محمد نوید جمیل گھر کے گیٹ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ کار نمبر LE/1212 اپر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر دی، جس سے نوید موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
15 ایمرجنسی کال ملنے پر پولیس افسران ٹیم کے ہمراہ پہنچے ، جہاں سی سی ٹی وی کیمروں اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے اور بیان لے کر تحقیقات شروع کردی گئی۔
پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کیا۔ اس حوالے سے حکام نے بتایا کہ دیرینہ دشمنی سمیت تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیقات کی جا رہی ہے۔ مزید کارروائی حسب ضابطہ عمل میں لائی جا رہی ہے۔
پولیس حکام کا ابتدائی طور پر کہنا ہے کہ سابقہ بیوی کے ساتھ رنجش یا 8 سالہ پرانا کیس بھی قتل کی اہم وجہ ہو سکتا ہے، تاہم فی الوقت تحقیقات جاری ہیں۔ واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لاکر سزا دلوائی جائے گی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق مقتول نے 2 سال قبل دوسری شادی کی تھی جب کہ مقتول کا ایک کزن بھی کچھ عرصہ قبل قتل ہوا تھا۔ میاں نوید اس کیس کی بھی پیروی کررہا تھا ۔ مقتول میاں نوید کے پراپرٹی کے مسئلے بھی مخالفین کے ساتھ چل رہے ہیں اور وہ پہلی بیوی کو بھی طلاق دے چکا ہے۔ اس سے قبل بھی اس پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، تمام پہلو پولیس کی نظر میں ہیں۔
دریں اثنا مقتول میاں نوید کے والد میاں محمد جمیل نے مقدمہ اندراج کے لیے تھانہ چوہنگ پولیس کو درخواست دے دی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابقہ بیوی پر بھی شک کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں مقتول کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کیا ہے، جنہیں سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں۔
پولیس نے قریبی کیمروں اور سیف سٹی فوٹیجز حاصل کرکے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کی تصاویر بھی پولیس نے حاصل کر لی ہیں۔ تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے آپریشن اور انویسٹی گیشن ونگ کے علاوہ او سی یو ٹیم بھی کام کررہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
سندھ کی تقسیم کا معاملہ پاکستان کی سیاست میں ایک حساس موضوع رہا ہے جو اب ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کوئی کیک نہیں جو بانٹ دیا جائے، پیپلز پارٹی کا مصطفیٰ کمال کے بیان پر ردعمل
وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرآپ ایم کیو ایم کی بات نہیں سنتے ہیں تو سندھ میں صوبہ بنے گا کیونکہ آپ حالات ایسے بنارہے ہیں اور لوگوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل اور ثقافت میں بڑا فرق ہے۔ ان کے مطابق، شہری علاقوں کے مسائل پر صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہیں دی جاتی اور ایک نئے صوبے سے بہتر انتظامی کنٹرول، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہری علاقوں کے لوگوں کو زیادہ نمائندگی مل سکے گی۔
سندھ کی تقسیم کی سخت مخالفت صوبے کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ صوبوں کی تقسیم کسی کے حق میں نہیں ہے ویسے تو عام آدمی یا ورکرز کے لیے یہ اچھا لگے گا جیسے قوم پرست نتظیموں نے سندھ کی علیحدگی کے نعرے لگائے تھے۔
مزید پڑھیے: ’دودھ دینے والی گائے، کہیں مر ہی نہ جائے‘: مصطفیٰ کمال کی شہری علاقوں کی محرومیوں‘ پر گفتگو
انہوں نے کہا کہ اس سے سندھ علیحدہ تو نہیں ہوا ایسے ہی مہاجر صوبے کا نعرہ لگا کر شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ لوگوں کو سبز باغ دیکھا دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں اور اگر ہوا ایسا تو حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔
رفعت سعید کا کہنا ہے کہ اس ملک میں سیاست کی صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی بنیاد پر بھی صوبہ بنانے کو صوبے کی تقسیم سمجھا جاتا ہے اور صوبے کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کی جا رہی سب مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بات چیت کی سیاست نہیں رہی جب مکالمہ ہوا کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزا جواد بیگ ہوا کرتے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ انتظامی طور پر پاکستان کے 32 صوبے بنا دو تو کہ مسائل حل ہو سکیں، بات کی جاتی ہے پنجاب کی تو وہاں زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہے وہاں بھی بات سب کرتے ہیں لیکن اس وقت عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کی لوکل باڈیز کے حوالے سے مجوزہ ترمیم پر مزید مشاورت کی جائےگی، وزیراعظم
ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے رفعت سعید کا کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ مطمئن تھے کہ ان کی بات رکھی جائے گی لیکن ان کی باتوں کو جگہ نہ مل سکی، ہو سکتا ہے انہیں 28 ویں ترمیم میں کوئی آسرا دیا جائے۔
رفعت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو بات کہے گی اس کو ماننی ہوگی اور ویسے بھی اب یہ تقسیم ہوچکی ہے اور پہلے جیسی ایم کیو ایم نہیں رہی اور نہ ہی اسے ماضی والی ایم کیو ایم بننے دیا جائے گا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حمید سومرو نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبے کے معاملات 70 کی دہائی میں شروع ہوئے ممتاز علی بھٹو کے دور میں وہ بھی لسانی بنیاد پر اس وقت یہ آواز سامنے آئی کہ شہری علاقوں کو الگ حیثیت دی جائے اس کے بعد پھر ایم کیو ایم سے نقشے بھی برآمد ہوئے اور مطالبات بھی سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے کو مہاجر کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جیسے پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کھیلتی ہے ویسے ایم کیو ایم مہاجر کارڈ کھیلتی ہے کیوں کہ یہ لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ایم کیو ایم پنجاب کا اجلاس، بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سیاسی ہمدردیاں حاصل کر رہی ہے اس وقت مسائل حل نہ ہونے کے باعث لوگوں میں احساس محرومی ہے اور یہ اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بننا اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ آئین کے مطابق متعلقہ صوبے کی اسمبلی ایک تہائی اکثریت سے بل پاس کرے گی، اس کے بنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی کارڈ ہے جو ہر صوبے میں مختلف اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن سوائے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔
تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ناقص اور گورننس بدترین ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی ترقی کو رکی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر اور عوام کبھی فیلڈ مارشل کو تو کبھی چیف جسٹس آف پاکستان کو پکارتے ہیں اور کراچی کے انتظامی معاملات سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: نئے صوبے 3 ٹیلی فون کی مار ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فون کریں اور ترمیم کرالیں، حافظ نعیم
عتیق میر کے مطابق کراچی الگ صوبہ نہ بھی بنائیں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ سندھ سے الگ ہونا چاہیے تا کہ کراچی کے عوام و تاجر کراچی اور ملک کے لیے مل کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کا پورا ڈھانچہ درہم برہم ہے جبکہ میئر کراچی جو پیپلز پارٹی کے ہیں اور ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔
عتیق میر نے کہا کہ اگر لفظ صوبہ پیپلز پارٹی کو گراں گزرتا ہے تو صوبہ بھلے نہ بنے لیکن اس کے معاملات الگ ہوں جو صرف اور صرف کراچی کے لیے ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم ایم کیو ایم اور مسئلہ کراچی پیپلز پارٹی علیحدگی پسند جماعتیں مسئلہ کراچی