Express News:
2025-11-03@16:50:44 GMT

صیہونیت کی الف ب ت اور بن گوریان (قسط ششم)

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

اگر کوئی اسرائیل میں اترتا ہے تو وہ لازماً ملک کے واحد بین الاقوامی بن گوریان ایرپورٹ پر ہی اترے گا۔

کہتے ہیں کہ ہرزل نہ ہوتا تو صیہونیت کی موجودہ نظریاتی شکل نہ ہوتی۔وائزمین نہ ہوتا تو شاید بالفور ڈیکلریشن نہ جاری ہوتا۔مگر بن گوریان نہ ہوتا تو شاید اسرائیلی ریاست ہی نہ ہوتی۔بیسویں صدی کی سو بااثر ترین عالمی شخصیات کی ٹائم میگزین لسٹ میں بن گوریان بھی شامل ہیں۔

بن گوریان اکتوبر اٹھارہ سو چھیاسی میں ایک پولش یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ایویگڈور گرون کٹر صیہونی تھے۔یوں بن گوریان کی گھٹی میں ہی صیہونیت تھی۔دیگر صیہونی رہنماؤں کے برعکس بن گوریان کی رسمی تعلیم اسکول تک ہی محدود رہی۔

البتہ انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا اور وقتاً فوقتاً گذر اوقات کے لیے اس کی تدریس بھی کی۔

انیس سو پانچ سے انیس سالہ بن گوریان نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔وہ پولینڈ میں زیرِ زمین جیوش ورکرز پارٹی میں کچھ عرصے فعال رہے۔ان سرگرمیوں کی بنا پر دو بار جیل کی سیر بھی کی۔

بقول بن گوریان انھوں نے اپنے آبائی قصبے پلونسک میں کبھی بھی بطور یہودی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کیا۔مگر پلونسک کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرحلہ وار فلسطین کو اپنا وطن بنایا۔اس لیے نہیں کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تھے بلکہ وہ ایک یہودی وطن کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے۔

انیس سو چھ میں بن گوریان خاندان بھی نقل مکانی کر گیا۔انھوں نے جافا کے قریب قائم ایک یہودی بستی میں ڈیرہ ڈالا اور دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ ان کا مقابلہ مقامی عرب مزدوروں سے تھا جو اپنے کام میں زیادہ ماہر اور کم پیسے میں مزدوری پر بھی آمادہ رہتے تھے۔

جافا میں بن گوریان کو جیوش سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پرانے کامریڈز بھی مل گئے۔بن گوریان کو پارٹی کی منشور کمیٹی میں شامل کیا گیا۔مگر پھر پارٹی کے دو دھڑے ہو گئے۔ایک دھڑا مقامی عرب اور یہودی آبادی پر مشتمل مشترکہ ریاست کی جدوجہد کا حامی تھا۔ بن گوریان اور دیگر ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں صرف یہودی ریاست کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ مشترکہ ریاست کی صورت میں یہودی یورپ کی طرح یہاں بھی اکثریتی عرب آبادی کے رحم و کرم پر رہیں گے۔رفتہ رفتہ بن گوریان کا نظریاتی کیمپ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

چنانچہ پندرہ رکنی پارٹی کانفرنس کی اکثریت نے اس چارٹر کی منظوری دی کہ پارٹی یہودیوں کی سیاسی و معاشی آزادی کی جدوجہد کا محور بنے گی۔ پارٹی ارکان عام لوگوں کو بھی عبرانی کے لسانی دھاگے میں پرونے کی کوشش کرینگے تاکہ ایک متحدہ قومی تصور مستحکم ہو سکے۔

انیس سو گیارہ میں پارٹی قیادت نے یورپی طاقتوں سے کسی تعاون کی امید نہ ہونے پر فیصلہ کیا کہ عثمانی حکومت سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔چنانچہ بن گوریان اور ان کے نوجوان ساتھیوں نے ترک علاقے سالونیکا کا رخ کیا تاکہ مقامی یہودی کمیونٹی میں سیاسی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ترک زبان بھی سیکھ لیں۔

انیس سو چودہ میں بن گوریان اور ان کے کامریڈ بن زیوی سالونیکا سے فلسطین جانے کے لیے بحری جہاز میں ہی تھے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔بن گوریان اور بن زیوی نے یروشلم پہنچتے ہی ترک افواج کی مدد کے لیے یہودی نوجوانوں کو بھرتی ہونے پر آمادہ کیا۔چالیس جوانوں پر مشتمل یہودی ملیشیا قائم ہوئی۔ مگر عثمانی انتظامیہ نے اس جذبے سے متاثر ہونے کے بجائے بن زیوی اور بن گوریان کو جبراً قاہرہ بھیج دیا۔

وہاں سے دونوں امریکا روانہ ہو گئے تاکہ صیہونیت کا پرچار کریں اور فلسطین میں مزید یہودی آبادکاری اور موجود آبادکاروں کی فلاح کے لیے چندہ لے سکیں۔یہ دورہ نظریاتی و مالی طور پر زیادہ کامیاب نہیں رہا۔مگر جب بن گوریان کی ادارات میں یہودی آبادکاروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں مضامین کا ایک مجموعہ ’’ عظیم اسرائیل ماضی اور حال ‘‘ انیس سو اٹھارہ میں نیویارک سے شایع ہوا تو اس کتاب کی ہزاروں کاپیاں تیزی سے بک گئیں۔ بن گوریان کی بطور مستند لکھاری اور بطور ایڈیٹر شہرت پھیلتی چلی گئی۔

جب بن گوریان اور ان کے ساتھیوں پر پہلی عالمی جنگ کے وسط میں واضح ہونے لگا کہ اب عثمانی سلطنت کا وقت پورا ہو گیا اور سلطنتِ برطانیہ کا آفتاب عروج پر ہے تو انھوں نے وفاداری پلٹنے میں لمحہ نہیں لگایا اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ان کا جیوش لیجن برطانیہ کی فلسطین مہم میں عثمانیوں کے خلاف لڑا۔ فلسطین اور دیگر علاقوں سے عثمانی بوریا بستر لپٹ گیا۔ بن گوریان اور دیگر برطانیہ کی نظر میں گڈ بوائے بن گئے۔

انیس سو انیس میں فوج میں چھانٹی کے سبب جیوش لیجن کی بھی ضرورت نہیں رہی۔بن گوریان دوبارہ ٹریڈ یونین تحریک میں فعال ہو گئے۔انیس سو اکیس میں انھیں فلسطین کی صیہونی لیبر فیڈریشن (حساردوت ) کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا اور اس عہدے پر وہ انیس سو پینتیس تک فائز رہے۔

چونکہ یہودی آبادکاروں میں کسانوں ، محنت کشوں اور ہنرمندوں کی اکثریت تھی لہٰذا بن گوریان اس طبقے کی آنکھ کا تارہ ہو گئے۔البتہ یورپ اور امریکا کی یہودی بورژوازی نے دامے درمے اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقات تک نسلی و مذہبی قوم پرستی کی آواز پہنچانے میں ضرور کلیدی کردار نبھایا۔

بن گوریان اور ان کے ساتھیوں نے یہودی مزدور طاقت کو منظم اور یکجا رکھنے کے لیے مپائی کے نام سے سیاسی تنظیم قائم کی ( یہی جماعت اسرائیل کی تشکیل کے بعد لیبر پارٹی کے نام سے جانی گئی اور اس نے انیس سو ستتر تک بلاشرکتِ غیرے حکومت کی )۔

انیس سو پینتیس تک بن گوریان صیہونی تحریک کے سب سے طاقت ور رہنما کے طور پر ابھرے۔وہ عالمی صیہونی تنظیم کے صدر اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی نگراں جیوش ایجنسی کے چیئرمین بن گئے۔

انھوں نے لیبر تحریک کا ایک مسلح بازو ہگانہ کے نام سے قائم کیا۔اگرچہ ہگانہ دیگر مسلح یہودی ملیشیاؤں کے مقابلے میں اعتدال پسند سمجھی جاتی تھی۔مگر جب یہودی آبادکاروں کو محسوس ہوا کہ انیس سو چھتیس تا انتالیس کے عرصے میں فلسطینی تحریک دبانے میں برطانیہ کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود برطانیہ ایک یہودی ریاست کے قیام میں مدد دینے کے بجائے ٹال مٹول کر رہا ہے تو تمام مسلح ملیشیائیں عالمی جنگ ختم ہوتے ہی اس نکتے پر متفق ہو گئیں کہ ریاست کے قیام کے لیے دھشت گردی سمت ہر حربہ جائز ہے۔اب یا کبھی نہیں۔

چنانچہ ارگون اور لیوی نامی مسلح جتھوں نے عرب آبادی کو جبراً شہروں سے نکالنا شروع کیا اور ہگانہ نے یروشلم میں برطانوی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا۔اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد برطانیہ نے یہاں سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔

چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو بن گوریان نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور اگلے دن برطانوی اقتدار فلسطین سے ختم ہو گیا۔تین لاکھ فلسطینی پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔بقیہ چار لاکھ اسرائیل پر چار عرب ممالک کے حملے کی ناکامی کے بعد نکال دیے گئے۔اس جنگ میں نہ صرف برطانوی اور غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والا امریکی اسلحہ کام آیا بلکہ سوویت یونین کی تائید سے چیکو سلوواکیہ نے بھی نوزائیدہ ریاست کی بھرپور فوجی امداد کی۔

بن گوریان انیس سو تریسٹھ تک اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ان کی وزارتِ عظمی میں یہودی ملیشیاؤں کو ضم کر کے اسرائیلی ڈیفنس فورس تشکیل پائی۔انیس سو چھپن کی سویز جنگ بھی ہوئی۔مغربی جرمنی نے ہٹلر کی نسل کشی کے ازالے کے لیے پانچ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم اسرائیل کو مہیا کی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں احسان چکا رہا ہے۔

بن گوریان انیس سو ستر میں عملی سیاست سے ریٹائر ہو کر جنوبی اسرائیل کے ایک گاؤں میں بس گئے اور وہیں یکم دسمبر انیس سو تہتر کو ان کا ستاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔وہ اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ دیکھ کے رخصت ہوئے۔

نہوم گولڈمین عالمی صیہونی کانگریس کے انیس سو اکیاون تا اٹھہترصدر رہے۔ان کے بقول بن گوریان نے مجھ سے انیس سو چھپن میں ایک نجی ملاقات کے دوران کہا :
’’ میں عربوں کی جگہ ہوتا تو کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرتا۔یہ ایک فطری ردِعمل ہے۔ ہم بھلے سمجھتے ہیں کہ اس سرزمین کا وعدہ ہم سے خدا نے کیا تھا۔

مگر عربوں کو ہمارے عقیدے سے کیا واسطہ ؟ ہمارا خدا ان کا تو نہیں۔یہ سچ ہے کہ ہم بنی اسرائیل سے ہیں مگر یہ بھی دو ہزار برس پرانی بات ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہم صدیوں سے تعصب کا مسلسل شکار ہیں۔ہمیں ہٹلر کے نسل کش کیمپوں سے گذرنا پڑا۔مگر یہ عربوں کا تو دوش نہیں۔وہ تو بس یہی جانتے ہیں کہ ہم آئے اور ان کا ملک چوری کر لیا۔وہ آخر کیوں اسے قبول کریں ‘‘ ؟ ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بن گوریان اور ان کے میں بن گوریان بن گوریان کی ا بادکاروں میں یہودی انھوں نے یہودی ا ہوتا تو ہو گئے کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے

جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔

گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔

انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔

یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔

تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔

مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔

اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔

اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔

امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔

جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔

اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔

یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔

جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • امن کے نام پر نیا کھیل!ح-ماس کو دھمکیاں اسرائیل کو نظرانداز
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے