Express News:
2025-09-18@14:08:53 GMT

صیہونیت کی الف ب ت اور بن گوریان (قسط ششم)

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

اگر کوئی اسرائیل میں اترتا ہے تو وہ لازماً ملک کے واحد بین الاقوامی بن گوریان ایرپورٹ پر ہی اترے گا۔

کہتے ہیں کہ ہرزل نہ ہوتا تو صیہونیت کی موجودہ نظریاتی شکل نہ ہوتی۔وائزمین نہ ہوتا تو شاید بالفور ڈیکلریشن نہ جاری ہوتا۔مگر بن گوریان نہ ہوتا تو شاید اسرائیلی ریاست ہی نہ ہوتی۔بیسویں صدی کی سو بااثر ترین عالمی شخصیات کی ٹائم میگزین لسٹ میں بن گوریان بھی شامل ہیں۔

بن گوریان اکتوبر اٹھارہ سو چھیاسی میں ایک پولش یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ایویگڈور گرون کٹر صیہونی تھے۔یوں بن گوریان کی گھٹی میں ہی صیہونیت تھی۔دیگر صیہونی رہنماؤں کے برعکس بن گوریان کی رسمی تعلیم اسکول تک ہی محدود رہی۔

البتہ انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا اور وقتاً فوقتاً گذر اوقات کے لیے اس کی تدریس بھی کی۔

انیس سو پانچ سے انیس سالہ بن گوریان نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔وہ پولینڈ میں زیرِ زمین جیوش ورکرز پارٹی میں کچھ عرصے فعال رہے۔ان سرگرمیوں کی بنا پر دو بار جیل کی سیر بھی کی۔

بقول بن گوریان انھوں نے اپنے آبائی قصبے پلونسک میں کبھی بھی بطور یہودی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کیا۔مگر پلونسک کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرحلہ وار فلسطین کو اپنا وطن بنایا۔اس لیے نہیں کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تھے بلکہ وہ ایک یہودی وطن کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے۔

انیس سو چھ میں بن گوریان خاندان بھی نقل مکانی کر گیا۔انھوں نے جافا کے قریب قائم ایک یہودی بستی میں ڈیرہ ڈالا اور دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ ان کا مقابلہ مقامی عرب مزدوروں سے تھا جو اپنے کام میں زیادہ ماہر اور کم پیسے میں مزدوری پر بھی آمادہ رہتے تھے۔

جافا میں بن گوریان کو جیوش سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پرانے کامریڈز بھی مل گئے۔بن گوریان کو پارٹی کی منشور کمیٹی میں شامل کیا گیا۔مگر پھر پارٹی کے دو دھڑے ہو گئے۔ایک دھڑا مقامی عرب اور یہودی آبادی پر مشتمل مشترکہ ریاست کی جدوجہد کا حامی تھا۔ بن گوریان اور دیگر ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں صرف یہودی ریاست کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ مشترکہ ریاست کی صورت میں یہودی یورپ کی طرح یہاں بھی اکثریتی عرب آبادی کے رحم و کرم پر رہیں گے۔رفتہ رفتہ بن گوریان کا نظریاتی کیمپ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

چنانچہ پندرہ رکنی پارٹی کانفرنس کی اکثریت نے اس چارٹر کی منظوری دی کہ پارٹی یہودیوں کی سیاسی و معاشی آزادی کی جدوجہد کا محور بنے گی۔ پارٹی ارکان عام لوگوں کو بھی عبرانی کے لسانی دھاگے میں پرونے کی کوشش کرینگے تاکہ ایک متحدہ قومی تصور مستحکم ہو سکے۔

انیس سو گیارہ میں پارٹی قیادت نے یورپی طاقتوں سے کسی تعاون کی امید نہ ہونے پر فیصلہ کیا کہ عثمانی حکومت سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔چنانچہ بن گوریان اور ان کے نوجوان ساتھیوں نے ترک علاقے سالونیکا کا رخ کیا تاکہ مقامی یہودی کمیونٹی میں سیاسی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ترک زبان بھی سیکھ لیں۔

انیس سو چودہ میں بن گوریان اور ان کے کامریڈ بن زیوی سالونیکا سے فلسطین جانے کے لیے بحری جہاز میں ہی تھے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔بن گوریان اور بن زیوی نے یروشلم پہنچتے ہی ترک افواج کی مدد کے لیے یہودی نوجوانوں کو بھرتی ہونے پر آمادہ کیا۔چالیس جوانوں پر مشتمل یہودی ملیشیا قائم ہوئی۔ مگر عثمانی انتظامیہ نے اس جذبے سے متاثر ہونے کے بجائے بن زیوی اور بن گوریان کو جبراً قاہرہ بھیج دیا۔

وہاں سے دونوں امریکا روانہ ہو گئے تاکہ صیہونیت کا پرچار کریں اور فلسطین میں مزید یہودی آبادکاری اور موجود آبادکاروں کی فلاح کے لیے چندہ لے سکیں۔یہ دورہ نظریاتی و مالی طور پر زیادہ کامیاب نہیں رہا۔مگر جب بن گوریان کی ادارات میں یہودی آبادکاروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں مضامین کا ایک مجموعہ ’’ عظیم اسرائیل ماضی اور حال ‘‘ انیس سو اٹھارہ میں نیویارک سے شایع ہوا تو اس کتاب کی ہزاروں کاپیاں تیزی سے بک گئیں۔ بن گوریان کی بطور مستند لکھاری اور بطور ایڈیٹر شہرت پھیلتی چلی گئی۔

جب بن گوریان اور ان کے ساتھیوں پر پہلی عالمی جنگ کے وسط میں واضح ہونے لگا کہ اب عثمانی سلطنت کا وقت پورا ہو گیا اور سلطنتِ برطانیہ کا آفتاب عروج پر ہے تو انھوں نے وفاداری پلٹنے میں لمحہ نہیں لگایا اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ان کا جیوش لیجن برطانیہ کی فلسطین مہم میں عثمانیوں کے خلاف لڑا۔ فلسطین اور دیگر علاقوں سے عثمانی بوریا بستر لپٹ گیا۔ بن گوریان اور دیگر برطانیہ کی نظر میں گڈ بوائے بن گئے۔

انیس سو انیس میں فوج میں چھانٹی کے سبب جیوش لیجن کی بھی ضرورت نہیں رہی۔بن گوریان دوبارہ ٹریڈ یونین تحریک میں فعال ہو گئے۔انیس سو اکیس میں انھیں فلسطین کی صیہونی لیبر فیڈریشن (حساردوت ) کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا اور اس عہدے پر وہ انیس سو پینتیس تک فائز رہے۔

چونکہ یہودی آبادکاروں میں کسانوں ، محنت کشوں اور ہنرمندوں کی اکثریت تھی لہٰذا بن گوریان اس طبقے کی آنکھ کا تارہ ہو گئے۔البتہ یورپ اور امریکا کی یہودی بورژوازی نے دامے درمے اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقات تک نسلی و مذہبی قوم پرستی کی آواز پہنچانے میں ضرور کلیدی کردار نبھایا۔

بن گوریان اور ان کے ساتھیوں نے یہودی مزدور طاقت کو منظم اور یکجا رکھنے کے لیے مپائی کے نام سے سیاسی تنظیم قائم کی ( یہی جماعت اسرائیل کی تشکیل کے بعد لیبر پارٹی کے نام سے جانی گئی اور اس نے انیس سو ستتر تک بلاشرکتِ غیرے حکومت کی )۔

انیس سو پینتیس تک بن گوریان صیہونی تحریک کے سب سے طاقت ور رہنما کے طور پر ابھرے۔وہ عالمی صیہونی تنظیم کے صدر اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی نگراں جیوش ایجنسی کے چیئرمین بن گئے۔

انھوں نے لیبر تحریک کا ایک مسلح بازو ہگانہ کے نام سے قائم کیا۔اگرچہ ہگانہ دیگر مسلح یہودی ملیشیاؤں کے مقابلے میں اعتدال پسند سمجھی جاتی تھی۔مگر جب یہودی آبادکاروں کو محسوس ہوا کہ انیس سو چھتیس تا انتالیس کے عرصے میں فلسطینی تحریک دبانے میں برطانیہ کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود برطانیہ ایک یہودی ریاست کے قیام میں مدد دینے کے بجائے ٹال مٹول کر رہا ہے تو تمام مسلح ملیشیائیں عالمی جنگ ختم ہوتے ہی اس نکتے پر متفق ہو گئیں کہ ریاست کے قیام کے لیے دھشت گردی سمت ہر حربہ جائز ہے۔اب یا کبھی نہیں۔

چنانچہ ارگون اور لیوی نامی مسلح جتھوں نے عرب آبادی کو جبراً شہروں سے نکالنا شروع کیا اور ہگانہ نے یروشلم میں برطانوی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا۔اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد برطانیہ نے یہاں سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔

چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو بن گوریان نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور اگلے دن برطانوی اقتدار فلسطین سے ختم ہو گیا۔تین لاکھ فلسطینی پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔بقیہ چار لاکھ اسرائیل پر چار عرب ممالک کے حملے کی ناکامی کے بعد نکال دیے گئے۔اس جنگ میں نہ صرف برطانوی اور غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والا امریکی اسلحہ کام آیا بلکہ سوویت یونین کی تائید سے چیکو سلوواکیہ نے بھی نوزائیدہ ریاست کی بھرپور فوجی امداد کی۔

بن گوریان انیس سو تریسٹھ تک اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ان کی وزارتِ عظمی میں یہودی ملیشیاؤں کو ضم کر کے اسرائیلی ڈیفنس فورس تشکیل پائی۔انیس سو چھپن کی سویز جنگ بھی ہوئی۔مغربی جرمنی نے ہٹلر کی نسل کشی کے ازالے کے لیے پانچ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم اسرائیل کو مہیا کی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں احسان چکا رہا ہے۔

بن گوریان انیس سو ستر میں عملی سیاست سے ریٹائر ہو کر جنوبی اسرائیل کے ایک گاؤں میں بس گئے اور وہیں یکم دسمبر انیس سو تہتر کو ان کا ستاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔وہ اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ دیکھ کے رخصت ہوئے۔

نہوم گولڈمین عالمی صیہونی کانگریس کے انیس سو اکیاون تا اٹھہترصدر رہے۔ان کے بقول بن گوریان نے مجھ سے انیس سو چھپن میں ایک نجی ملاقات کے دوران کہا :
’’ میں عربوں کی جگہ ہوتا تو کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرتا۔یہ ایک فطری ردِعمل ہے۔ ہم بھلے سمجھتے ہیں کہ اس سرزمین کا وعدہ ہم سے خدا نے کیا تھا۔

مگر عربوں کو ہمارے عقیدے سے کیا واسطہ ؟ ہمارا خدا ان کا تو نہیں۔یہ سچ ہے کہ ہم بنی اسرائیل سے ہیں مگر یہ بھی دو ہزار برس پرانی بات ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہم صدیوں سے تعصب کا مسلسل شکار ہیں۔ہمیں ہٹلر کے نسل کش کیمپوں سے گذرنا پڑا۔مگر یہ عربوں کا تو دوش نہیں۔وہ تو بس یہی جانتے ہیں کہ ہم آئے اور ان کا ملک چوری کر لیا۔وہ آخر کیوں اسے قبول کریں ‘‘ ؟ ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بن گوریان اور ان کے میں بن گوریان بن گوریان کی ا بادکاروں میں یہودی انھوں نے یہودی ا ہوتا تو ہو گئے کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی

اسرائیلی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، اسرائیلی فوج غزہ پٹی کے سب سے گنجان آباد شہر غزہ سٹی میں داخل ہوگئی ہے، 40 فیصد شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا، رات بھر تباہی، بمباری اور گولہ باری میں مزید 90 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔

 غزہ پر اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے امریکا کی کھلی حمایت کے ساتھ غزہ میں جو جنگی جنون مسلط کیا گیا ہے، وہ اب محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، بلکہ مکمل طور پر ایک منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

یہ نسل کشی صرف توپ و تفنگ، میزائل اور بمباری تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ روزمرہ زندگی کی ہر بنیاد کو ختم کرنے تک پھیل چکا ہے۔ شہری آبادی، اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں، پانی کے ذخائر، بجلی کی لائنیں، خوراک کے مراکز اور مواصلاتی نظام سب کچھ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔

بین الاقوامی برادری بارہا اپیلیں کر چکی ہے، عالمی عدالت انصاف واضح احکامات جاری کر چکی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں، لیکن سب کچھ ایک ایسی دیوار سے ٹکرا رہا ہے جو طاقت، ہٹ دھرمی اور مفادات سے بنی ہوئی ہے۔

غزہ جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ تصور کیا جاتا تھا، اب ایک کھلا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جنھیں زبردستی جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پہلے سے وسائل کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فوجی آپریشن اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب غزہ شہر جیسے مرکزی علاقے بھی مکمل طور پر کھنڈر بن چکے ہیں۔

 یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستی طاقت کو نہایت منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا کو ان جرائم کا علم نہیں۔

اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، خود بین الاقوامی میڈیا، غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حال ہی میں اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے واضح طور پر ان اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود اسرائیل کو روکنے والا کون ہے؟ کیا عالمی قانون صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا انسانی حقوق صرف یورپ یا امریکا کے شہریوں کے لیے مخصوص ہیں؟

امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، نہ صرف فوجی اور مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تمام قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ اور دیگر معتبر اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی یہ شراکت محض حمایت تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کے زمرے میں آتی ہے۔

امریکا کا دہرا معیار عالمی انصاف کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے، اگر روس کی جانب سے یوکرین میں کی گئی فوجی کارروائی کو عالمی قانون کی خلاف ورزی کہا جا سکتا ہے، تو اسرائیل کے اقدامات کو اس سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ دوعملی عالمی امن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

 جرمنی، فرانس، برطانیہ جیسے ممالک نے ایک جانب یوکرین کے لیے ہمدردی کے سمندر بہائے، مگر فلسطین کی بربادی پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہی دہرا معیار دنیا کو یہ سبق دے رہا ہے کہ انسانی اقدار بھی مفادات کے تابع ہو چکی ہیں۔

غزہ کے بچوں کی زندگیاں، ان کے مستقبل، ان کے خواب اور ان کی امیدیں عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ادھر مسلم دنیا کی حالت یہ ہے کہ محض مذمتی بیانات اور دعاؤں تک محدود ہو گئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم ہو یا عرب لیگ، ان کے اجلاسوں سے نہ مظلوم کی مدد ہوئی ہے اور نہ ہی ظالم کی جارحیت میں کوئی کمی آئی ہے۔

فلسطینی عوام کی مزاحمت کو اکثر عالمی میڈیا ’’ دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں رکھ کر پیش کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی مقبوضہ قوم کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں۔ ان کی جدوجہد کو تسلیم کیے بغیر نہ کوئی مذاکرات کامیاب ہوں گے، نہ کوئی قیام امن ممکن ہوگا۔

 مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جب کہ فلسطینی عوام کی حالت زار کو یا تو نظر انداز کرتا ہے یا غیر واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ صحافیوں کی شہادتیں، میڈیا دفاتر پر بمباری، معلومات کی ترسیل پر قدغن، یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور غیر سرکاری صحافتی ذرایع ہی آجکل حقیقی تصاویر اور وڈیوز دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں واضح ہدایات دی تھیں کہ اسرائیل فوری طور پر ایسے تمام اقدامات بند کرے جن سے فلسطینی عوام کو نسل کشی کا خطرہ لاحق ہو اور یہ کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، مگر ان احکامات پر نہ کوئی عملدرآمد ہوا، نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ ڈالا گیا، اگر عدالتِ انصاف کے فیصلے بھی طاقتور ممالک کے مفادات کے تابع ہو جائیں تو پھر عالمی قانون اور انصاف کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور یہ ایک مثبت امر ہے، لیکن موجودہ حالات میں محض بیانات کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ میں ایک فعال اور قائدانہ کردار ادا کرے، اسلامی ممالک کو ایک لائحہ عمل پر متفق کرے، انسانی امداد فراہم کرے، اور عالمی عدالت میں اسرائیلی جرائم کے ثبوت پیش کرے۔ یہ صرف ایک سفارتی ضرورت نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔

 سات اکتوبر 2023سے قابض اسرائیل نے امریکا کی حمایت سے غزہ میں کھلی نسل کشی مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل عام، قحط، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔

یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔

دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔

بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک لبنان، شام، یمن اور ایران پر بمباری کی ہے، اور امریکی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سب سے زیادہ بیس ہزار سے زائد حملے کیے۔

فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت، انصاف اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھا جائے گا، اور کل ہماری نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب معصوم بچوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا، جب مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے رو رہی تھیں، جب انسانی زندگیاں ملبے کے نیچے دم توڑ رہی تھیں، تو تم کیا کر رہے تھے؟ کیا تم خاموش تماشائی بنے رہے؟ یا تم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟

 اگر اقوام عالم خاموش رہیں تو کل نہ صرف فلسطینی عوام مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، بلکہ عالمی انصاف، انسانی ہمدردی اور اخلاقی سچائی کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہو جائیں گے۔ فلسطین کی پکار صرف ایک قوم کی نہیں، پوری انسانیت کی پکار ہے۔ اور جو اس پکار پر لبیک نہیں کہے گا، وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا، اقوام متحدہ، عالمی عدالت، انسانی حقوق کی تنظیمیں، آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام عوام، سب کو متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ
  • اسرائیل، ایتھوپیا اور سوئز کینال کا نیا کھیل
  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • عرب اسلامی سربراہ اجلاس!
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل