آئینی بینچ:جسٹس جواد ایس خواجہ پر عاید جرمانے کا فیصلہ واپس
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (آن لائن) آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد کردہ 20 ہزار روپے جرمانہ واپس لے لیا، سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ
اپیل کی سماعت میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟ کیا احتجاج کرنا جرم ہے؟۔سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے اور عام شہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے؟خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشت گرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔وکیل نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21 ویں ترمیم بلاوجہ کی گئی، 21 ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ملزم کے حقوق ہوتے ہیں، گرفتاری سے پہلے بھی سزا کے بعد بھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سب فیصلے ہمارے سامنے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ قانون ٹھیک بنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس پر لاگو ہوتا ہے، عدالت سے صرف یہ گزارش ہے کورٹ مارشل کا دروازہ نہ کھولیں، اگر اس اپیل کو منظور کیا جاتا ہے تو انسانی حقوق کے بر خلاف ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے ہمارے سامنے ایک اپیل ہے وہ سن رہے ہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کا تعلق عوامی مفاد سے ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملے کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی زیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، گر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔وکیل نے مزید کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہاکہ آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ ایف بی علی کیخلاف ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیا الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاالحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا، اغوا کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب میں کہا کہ اس کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21 ویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کو ملنے والی توسیع 2019 میں ختم ہو گئی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟خواجہ احمد حسین نے کہاکہ 9 اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ ملزمان آزاد نہیں ہونگے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، اس موقع پر سماعت میں وقفہ ہوگیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہاکہ کوشش کروں گا 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں، عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اور دوسرا قومی سلامتی ہے، عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، عدالتی فیصلہ برقرار رہا تو کسی ملزم یا دہشتگرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسداد دہشتگری کا قانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں، عدالت کسی بھی صورت سویلنز کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے حوالے نہیں کر سکتی۔خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بینچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا، میری استدعا ہے پلیز مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرے موکل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکم نامے کے خلاف نظرثانی بھی دائر رکھی ہے، استدعا ہے کہ جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، پھر انہوں نے مسکرائے ہوئے وضاحت کی کہ یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر موثر ہو چکی ہے، آئینی بینچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔خواجہ احمد حسین نے کی استدعا کے بعد آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکم نامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی نظرثانی واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل مکمل کرلیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وکیل خواجہ احمد حسین نے ہے خواجہ احمد حسین نے خواجہ احمد حسین نے کہ نے کہا کہ 21 ویں ترمیم جسٹس مسرت ہلالی نے فوجی عدالتوں سپریم کورٹ نے کہا کہ ا کورٹ مارشل ایف بی علی نے دلائل وکیل نے جاتی ہے میں تو کیا کہ کے بعد شق تین
پڑھیں:
ایئرمارشل جواد سعید کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور بغاوت کے مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے.نمائندہ پاک فضائیہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ سابق ایئر مارشل جواد سعید کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے علاوہ بغاوت کے ایک مقدمے میں بھی ٹرائل ہوا ہے اور ان دونوں مقدمات میں سابق افسر کو سزا سنائی گئی ہے. قبل ازیں 28 مارچ 2025 کو کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سابق ایئرمارشل جواد سعید کا حساس دستاویزات شیئر کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا ہے اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے پاک فضائیہ کی جانب سے عدالت میں یہ بیان سابق ایئرمارشل کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران آیا تھا.(جاری ہے)
ایئرفورس کے نمائندے کی جانب سے جب یہ بتایا گیا کہ ریٹائرڈ افسر کا کورٹ مارشل کیا جا چکا ہے تو عدالت نے اہلیہ کی درخواست خارج کر دی تھی جس کے خلاف انہوں نے اسی عدالت میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی تھی پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے اہلیہ کی نظرثانی کی اپیل پر سماعت کی جس کے دوران پاکستان فضائیہ کے نمائندے نے عدالت میں کوئی تحریری دستاویزات پیش نہیں کیں اس اپیل کی سماعت کے دوران ایئرفورس حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل کرنے کے بعد انہیں ایک سب جیل میں رکھا گیا ہے عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس ضمن میں ایک فوجی میس کو ہی سب جیل قرار دیا گیا ہے. جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دے کر کسی ملزم یا مجرم کو وہاں قید کر سکیں انہوں نے کہا کہ دراضل یہ اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دے. کرنل انعام نے دلائل میں کہا کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی سے لے کر آج تک جتنے بھی فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہوا ہے انہیں سزا دینے کے بعد سویلین اتھارٹی کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے اور ایسے مجرمان کو عام جیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو دیگر عام پاکستانی قیدیوں کے ہوتے ہیں یعنی انہیں جیل مینوئل کے مطابق اپنے اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت ہوتی ہے. اس موقع پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے محض اس بنیاد پر بشری بی بی کو واپس اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا چونکہ انہیں بنی گالہ منتقل کرنے سے پہلے ان کی رضامندی نہیں لی گئی تھی. انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ایئرفورس کے نمائندے کو حکم دیں کہ وہ اس نوٹیفیکیشن کو عدالت میں پیش کریں جس میں فوجی میس کو سب جیل قرار دینے کا کہا گیا ہے انہوں نے یہ بھی استدعا کی کہ اس کے ساتھ ساتھ جواد سعید کے خلاف چارج شیٹ اور ان کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کی کاپی بھی فراہم کی جائے. جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب کسی ملزم کو سزا سنا کر مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر اس فیصلے کی کاپی عدالت میں اور متاثرہ فریق کو دینا قانونی طور پر ضروری ہے انہوں نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ کا قانون تبدیل ہو گیا ہے اور اب وفاقی حکومت ایسے معاملات کی سماعت کے لیے ایک جج مقرر کرتی ہے جو کہ ایسے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج سائفر مقدمے کی سماعت بھی سول عدالت میں ہوئی تھی جبکہ فی الوقت ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کا ٹرائل بھی سول کورٹ میں ہو رہا ہے. کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اپنی اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ایکٹ میں ہے کہ جس کسی کا ٹرائل ہو گا تو اس کی فیملی کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا لیکن ان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ جب ایئرفورس کے حکام یہ مان چکے ہیں کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید سزا یافتہ ہیں تو پھر وہ انہیں کیسے اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ان کے موکل گذشتہ ایک سال سے غیر قانونی تحویل میں ہیں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت یہ بھی استدعا کی وہ اس اپیل میں بنائے گئے فریقین بشمول پاکستان ایئرفورس کو حکم دیں کہ وہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے مقدمے کا تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کرے. عدالت نے اپیل کندہ کی اس استدعا کو منظور کرتے ہوئے ضروری دستاویزات آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا واضح رہے کہ کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 27 جنوری 2024 کو جواد سعید کا کورٹ مارشل ہواجس کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ بھی 11 مارچ 2024 کو ہو چکا ہے اور فی الحال جواد سعید کی سزا کے خلاف رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے.