پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں موسمیاتی استحکام کیلیے معاہدہ طے
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اے پی پی) کلائمیٹ ویلنریبل فورم۔ویلنریبل ٹونٹی گروپ آف فنانس منسٹرز (سی وی ایف-وی 20) اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے پاکستان
اور خطے میں موسمیاتی استحکام، پائیدار ترقی اور ماحولیاتی حکمرانی پر تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کے ساتھ مقامی ہوٹل میں ایک تاریخی مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔ اس اسٹریٹجک شراکت داری کا مقصد دونوں اداروں کی مہارت اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے موسمیاتی چیلنجز کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا، پائیدار معاشی ترقی کا فروغ اور پاکستان کے کلائمیٹ پروسپیرٹی پلان کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوششوں کو تقویت دینا ہے۔ مفاہمت کی یادداشت میں تحقیق، پالیسی وکالت، بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے، اختراع اور صلاحیت سازی کی مشترکہ کوششوں کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جو پاکستان کی موسمیاتی استحکام کی کوششوں کو فائدہ پہنچائے گی اور علاقائی تعاون کو بھی بڑھائے گی جبکہ وفد کی سربراہ سارہ جین احمد مینیجنگ ڈائریکٹر سی وی ایف-وی 20جو2 ہفتے کے پروگرام پر مشاورت کے لیے پاکستان میں موجود ہیں، انہوں نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ ایم او یو کے حوالے سے سی وی ایف-وی 20کے ریجنل ڈائریکٹر جنوبی ایشیا حمزہ ہارون نے کہا ہے کہ یہ شراکت داری پاکستان اور خطے کے لیے موسمیاتی طور پر مستحکم مستقبل کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مہارت، اختراع اور اسٹریٹجک پالیسی عمل کو یکجا کر کے ہم موسمیاتی مالیات تک رسائی، ترقی کو فروغ دینے، ترقیاتی اور موسمیاتی نتائج حاصل کرنے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں اور اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ پاکستان کا کلائمیٹ پروسپیرٹی پلان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے براہ راست متاثر ہونے والے کمیونٹیز کے لیے حقیقی اثرات پیدا کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی بھی صنفی تشدد میں اضافہ کی وجہ، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) موسمی شدت، نقل مکانی، غذائی قلت اور معاشی عدم استحکام سے صنفی بنیاد پر تشدد کے مسئلے کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، رواں صدی کے اختتام پر گھریلو تشدد کے 10 فیصد واقعات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا نتیجہ ہوں گے۔
خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے 'سپاٹ لائٹ اقدام' کی جاری کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایسے سماجی و معاشی تناؤ میں اضافہ کر رہی ہے جس کے نتیجے میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس تناؤ سے ایسے علاقے کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں خواتین کو پہلے ہی شدید عدم مساوات اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی حدت میں ہر ڈگری سیلسیئس کے اضافے سے خواتین پر ان کے شوہروں یا مرد ساتھیوں کے تشدد میں 4.7 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
حدت میں دو ڈگری اضافے کا مطلب یہ ہے کہ 2090 تک مزید چار کروڑ خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا سامنا ہو گا۔
اسی طرح 3.5 ڈگری اضافے کے نتیجے میں یہ تعداد دو گنا سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔'سپاٹ لائٹ اقدام' یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی شراکت ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
سپاٹ لائٹ اقدام کے تحت کی جانے والی تحقیق میں موسمی شدت کے واقعات اور صنفی بنیاد پر تشدد میں واضح تعلق سامنے آیا ہے۔
2023 میں 9 کروڑ 31 لاکھ لوگوں کو موسمیاتی حوادث اور زلزلوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس عرصہ میں تقریباً 42 کروڑ 30 لاکھ خواتین اپنے شوہروں یا مرد ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنیں۔ایک جائزے کے مطابق، شدید گرمی کے ادوار میں خواتین کے قتل کے واقعات میں 28 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، سیلاب، خشک سالی یا ارضی انحطاط جیسے حالات کے بعد لڑکیوں کی نوعمری کی شادی، انسانی سمگلنگ اور ان کے جنسی استحصال کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد عالمگیر وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ یا ایک تہائی خواتین کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ تقریباً سات فیصد خواتین ہی تشدد کے واقعات پر پولیس یا طبی خدمات مہیا کرنے والوں کو اس کی اطلاع دیتی ہیں۔
حدت اور تشدد کا باہمی تعلقچھوٹے کاشت کار گھرانوں اور غیررسمی شہری آبادیوں میں رہنے والی غریب خواتین کو تشدد کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ قدیمی مقامی، جسمانی معذور، معمر یا ایل جی بی ٹی کیو آئی + برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے بھی یہ خطرات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ انہیں خدمات، پناہ یا تحفظ تک محدود رسائی ہوتی ہے۔
اندازوں کے مطابق، عالمی درجہ حرارت میں 4 ڈگری سیلسیئس اضافے کی صورت میں 2060 تک ذیلی۔صحارا افریقہ کے ممالک میں شوہروں یا مرد ساتھیوں کے تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد 140 ملین تک پہنچ جائے گی جو 2015 میں 48 ملین تھی۔ تاہم، اگر عالمی حدت میں اضافے کی شرح 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رہے تو اس عرصہ میں تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد میں 10 فیصد تک کمی آ جائے گی۔
رپورٹ میں ماحولیاتی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو لاحق خطرات کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ زمین کے تباہ کن استعمال یا کان کنی کی صنعتوں کے اقدامات پر آواز اٹھانے والے ایسے بہت سے لوگوں کو ہراسانی، بدنامی، جسمانی حملوں یا اس سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ مسئلہ ہنگامی توجہ کا متقاضی ہے لیکن موسمیاتی مقاصد کے لیے دی جانے والی ترقیاتی امداد میں صنفی مساوات کے لیے صرف 0.04 فیصد وسائل ہی مختص کیے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کمی اس حقیقت کے ادراک میں ناکامی کا ثبوت ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد (جی بی وی) کی شرح سے موسمیاتی استحکام اور انصاف کا تعین بھی ہوتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے اقدامات کو مقامی سطح پر موسمیاتی حکمت عملی کی تشکیل سے لے کر عالمی سطح پر مالی وسائل کی فراہمی کے طریقہ ہائے کار تک، ہر طرح کی موسمیاتی پالیسی میں شامل کرنا ہو گا۔
موثر موسمیاتی اقدامات میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ، مساوات اور ان کے قائدانہ کردار کو ترجیح دینا ہو گی۔ ان کے خلاف تشدد کا خاتمہ انسانی حقوق کا لازمہ ہی نہیں بلکہ منصفانہ، پائیدار اور موسمیاتی اعتبار سے مستحکم مستقبل کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے۔