کتے تاریخ نہیں پڑھتے (پہلی قسط)
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
صدر ٹرمپ کی آتے ہی حرمزدگی دیکھیں، 26 جنوری 2025 الجزیرہ نے خبر شائع کی کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے بعد وہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک پر نقل مکانی کرنے والے مزید15 لاکھ فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے دبائو ڈالیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تجویز وقتی ہے یا طویل مدتی تو ٹرمپ نے کہا کہ ’’یہ بھی ممکن ہے اور وہ بھی‘‘ تجویز وقتی ہو یا طویل مدتی صدر ٹرمپ کی اس خواہش کی آئینہ دار ہے جس میں وہ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا چاہتے ہیں۔ امریکی صدور کے نزدیک دنیا جب ہی رہنے کی جگہ ہوسکتی ہے جب وہ مسلمانوں سے خالی ہو۔ وہ پوری دنیا میں اس کا تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کل غزہ کے مسلمان ہدف ہیں۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسی ناکام خواہش کرنے والوں نے تاریخ نہیں پڑھی؟ جواب ہے ’’کتے تاریخ نہیں پڑھتے‘‘۔
امریکا میں ڈنگر عام ہیں۔ ان میں سے جو منتخب ہوں امریکی انہیںصدر بنا دیتے ہیں۔ امریکی صدور دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو عالم اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں، دوسرے بھی وہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی خالی کردہ جگہوں کو وہ یہودیوں سے پر کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا ’’جب میں مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسرائیل ایک بہت چھوٹا سا ٹکڑا لگتا ہے۔ میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ یہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ (اسکائی نیوز: 19/8/2024)
اسرائیل کی توسیع کا آغاز وہ غزہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ امن معاہدے سے پہلے جب اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری کرکے اسے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کررہا تھا وہاں یہودی بستیاں بسانے اور ساحل پر ہوٹل وغیرہ بنانے کا پروگرام طے کیا جارہا تھا۔ غزہ کی انہوں نے پلاٹنگ بھی کرلی تھی اور نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرالڈ کشنر وہاں لگژری پیلس کھڑے کرنے میں بہت سنجیدہ تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہاں رکے بھی تھے۔ ان دنوں اہل غزہ کو کسی افریقی ملک میں منتقل کرنے کی کوششیں بھی کررہے تھے اور اس سلسلے میں ان کی بات چیت بھی ہورہی تھی۔ صرف غزہ ہی نہیں صدر ٹرمپ مغربی کنارے میں آباد کاری کے منصوبے کو جائز قرار دے کر یہودی وجود کی توسیع چاہتے ہیں، اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اور نئی آباد کاری کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کھولنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ اپنے عزائم کے اظہار میں بہت بے حیا ہیں۔ کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھتے۔ اسرائیل کے لیے امریکی سفیر کے طور پر مایک ہاکابی کو نامزد کرتے ہوئے 13 نومبر 2024 کو انہوں نے اپنے سوشل ویب سائٹ اکائونٹ پر کہا تھا ’’یہ اسرائیل اور اسرائیلی عوام سے محبت کرتا ہے، اسی طرح اسرائیلی عوام بھی اس سے محبت کرتی ہے، مایک بغیر تردد کے مشرق وسطی میں امن کے لیے کام کرے گا‘‘۔ بی بی سی نے اسی دن مایک ہاکابی کا ایک بیان یہودی چینل 12 کے توسط سے نقل کیا کہ ہاکابی یہودی وجود اسرائیل کی حمایت میں اپنے بیانات کے لیے مشہور ہے۔ ہاکابی نے 2015 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ: ’’اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کا مطالبہ امریکا کی جانب سے مین ہٹن کے متعلق مطالبے سے زیادہ مضبوط ہے‘‘۔ سوشل میڈیا میں اس کی ایک 2017 کی ویڈیو موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’مغربی کنارہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ یہودا اور سامرہ ہے، آباد کاری نام کی کوئی چیز نہیں یہ سوسائٹی ہے، یہ محلے ہیں، یہ شہر ہیں، قبضہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔
مایک ہاکابی نے یہودی چینل 7 کے ساتھ بات کرتے ہوئے 15 نومبر 2024 کو اپنے ان بیانات کو دہراتے ہوئے کہا کہ: ’’ایسی کوئی بات کرنا میرے لیے ممکن نہیں جس پر مجھے یقین نہ ہو، مغربی کنارے کی اصطلاح استعمال کرنے کے لیے میں ہرگز تیار نہیں ہوں، اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے، میں یہودا اور سامرہ کی بات کر رہا ہوں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ کوئی قابض نہیں ہے‘‘ اس نے کہا: ’’یاد کریں کہ گزشتہ جن چار سال میں ٹرمپ صدر رہا اس دوران ٹرمپ، تاریخ میں کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسرائیل کا حامی رہا، اس نے القدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے، امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے اور گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی قانونی ملکیت قرار دینے سمیت بہت کچھ کیا، اس نے دو ریاستی حل پر کوئی پیش رفت نہیں کی، کیونکہ یہ غیر عملی اور ناقابل عمل حل ہے‘‘، اس نے کہا ’’میں نہیں سمجھتا کہ دو ریاستی حل کا کوئی جواز ہے، میرا سال ہا سال سے یہی موقف ہے، اس موقف سے ٹرمپ متفق ہے اور میں اسی کے تسلسل کی توقع کرتا ہوں‘‘ ان بیانات سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں ٹرمپ کا موقف واضح ہو جاتا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے پر قبضے اور آباد کاری کو جواز دے کر اسرائیل کی توسیع اور گریٹر اسرائیل کو عملی شکل دینا چاہتا ہے۔
صدر ٹرمپ سیکس اور سیاست کو ایک ہی موضوع باور کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا ان کے پاس ایک متعین حل موجود ہے سوائے فلسطینی ریاست کے، چاہے اس ریاست کا حجم کچھ بھی ہو۔ وہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ میں بھی آباد کاری کو باقاعدہ سرکاری طور پر قانونی حیثیت دیے جانے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس بات کی تائید ٹرمپ کی جانب سے ان یہودی آباد کاروں پر عائد پابندی اٹھائے جانے سے بھی ہو رہی ہے جن کی تجاوزات کو امریکا نے بائیڈن کے دور میں غیر قانونی قرار دے رکھا تھا۔ ٹرمپ کے نزدیک خطے میں امن کا مطلب، اسرائیل کا مغربی کنارے کی زمین پر قبضے اور اس پر آباد کاری کو قبول کرنا ہے، اور ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی کو فی الحال کچھ حد تک خود مختار انداز میں بقا کا حق دینا ہے تاکہ وہ سیکورٹی تعاون کے نام پر یہودی وجود کی خدمت جاری رکھے، لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرتی رہے، اور کچھ بلدیاتی خدمات کے ذریعے اتھارٹی کے کارندے لوگوں کو قابو میں رکھیں۔
صدر ٹرمپ کے انداز سے ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اپنی خدائی ان کے سپرد کردی ہے۔ دنیا میں کوئی ان کا مقابل اور رقیب نہیںہے۔ وہ جو چاہتے ہیں کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو وہم میں رکھ کر سبز باغ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں جیسے شیطان اپنے پیروکاروں کو دکھاتا ہے۔ الجزیرہ نے 23 جنوری 2025 کو خبر نشر کی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے چار دن میں وہ کچھ حاصل کیا جو سابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے چار سال میں حاصل نہیں کیا، اگر ان کی انتظامیہ نہ ہوتی تو اس ہفتے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہوتا۔ سعودی عرب، امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر وہ سعودیہ سے سرمایہ کاری کو ایک ہزار ارب ڈالر تک بڑھانے کا مطالبہ کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے سے یہودی وجود کے لیے ’’تحائف کا بستہ‘‘ حاصل کیا ہے یہودی اخبار یدیعوت احرنوت نے 14 جنوری 2025 کو ذکر کیا کہ اسرائیل کے پاس اس بات کا حق ہو گا کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرے تو اس جنگ بندی کو ختم کر سکتا ہے، اور عنقریب وائٹ ہاؤس ان پابندیوں کو اٹھا لے گا جو سابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے جرائم کا ارتکاب کرنے والے بعض آباد کاروں پر عائد کی تھیں، وہ اقوام متحدہ کی ان دو عدالتوں کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم شروع کرے گا جنہوں نے اسرائیل کے خلاف، اور خاص طور پر نیتن یاہو اور ان کے وزیر ِ دفاع گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں تحقیقات یا مقدمات چلائے تھے۔(جاری ہے)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی کوئی چیز نہیں کی انتظامیہ ٹرمپ نے کہا یہودی وجود اسرائیل کی ا باد کاری کی جانب سے چاہتے ہیں کاری کو نہیں ہے کے خلاف کہا تھا کے لیے
پڑھیں:
لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
اسلام ٹائمز: اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: ہادی محمدی
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم خطے میں اپنی فتح اور اسلامی مزاحمت کی نابودی کا جشن منا رہے ہیں اور ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ غل غپاڑہ اور پروپیگنڈہ خطے میں موجود زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اگرچہ انہوں نے لبنان میں فوجی جارحیت، نرم جنگ اور فتح کے باجے بجانے کے ساتھ ساتھ لبنان حکومت سے بھتہ وصول کرنے اور اسے اپنے ناجائز مطالبات کے سامنے سر جھکا دینے کی بھرپور کوششیں انجام دی ہیں لیکن اب تک ان کی یہ تمام کوششیں ناکامی اور شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اس سال کے آغاز میں لبنان سے جنگ بندی کا اعلان کر تو دیا لیکن اس کے باوجود جنوبی لبنان میں اسرائیل کی فضائی جارحیت اور لبنانی شہریوں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔
اسرائیلی حکمرانوں نے لبنان سے جنگ بندی کی تمام خلاف ورزیوں کو حزب اللہ لبنان کے ٹھکانوں پر حملوں اور حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ ظاہر کر کے اپنے ان مجرمانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اندرونی سطح پر اپنی عزت اور وقار بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونیفل کے مشن میں توسیع دینے کی کوشش کی تاکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کو بائی پاس کر کے پورے لبنان میں مداخلت آمیز اقدامات اور جاسوسی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ شروع کر سکیں لیکن لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی مشیروں اورٹیگاس اور تھامس براک کی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا نہ ہو سکا اور یونیفل کے مشن میں توسیع کی کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد لبنان حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا گیا۔
امریکہ اور اسرائیل کی یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہو گئی جب لبنان آرمی نے حزب اللہ لبنان سے ٹکر لینے سے انکار کر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد پر زور دے دیا۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اس وقت کئی قسم کے سنگین بحرانوں سے روبرو ہے جن میں اقتصادی بحران، فوج میں ٹوٹ پھوٹ اور عوام کی جانب سے جنگ کے خلاف شدید بے چینی اور احتجاج شامل ہیں۔ جنوبی لبنان میں اس وقت بھی چند اسٹریٹجک مقامات اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں اور اسرائیلی حکمران ان مقامات سے فوجی انخلاء کے بدلے نئی سودا بازی کے درپے تھے۔ اس طرح لبنان حکومت اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر نظارت کرنے والی قوتوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جسے "میکانزم" کا نام دیا گیا۔ گذشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی سینٹرز نے لبنان حکومت پر شدید دباو ڈال رکھا ہے جس کا مقصد حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔
ان امریکی سینٹرز نے دھمکی آمیز لہجہ اپناتے ہوئے لبنان حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح نہ کر سکی تو اس کے سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔ اسی سلسلے میں اورٹیگاس نے بھی لبنان اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے پہلے اسرائیل نے وحشیانہ ادناز میں لبنان کے مختلف مقامات پر فضائی حملے انجام دیے تاکہ یہ بتا سکے کہ وہ ہر قسم کی بربریت کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ ڈرامہ بازی ایسے وقت کی جا رہی ہے جب امریکہ اور اسرائیل لبنان میں اسلامی مزاحمت کو ختم کر دینے کے کھوکھلے دعووں کے بعد اب اس حقیقت کو قبول کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حزب اللہ لبنان نے نہ صرف اپنی طاقت بحال کر لی ہے بلکہ وہ غاصب صیہونی رژیم کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے۔
لہذا گذشتہ ہفتے کے شروع میں اسرائیلی فوج نے چار دن کی فوجی مشقیں انجام دیں اور ان کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں پر حزب اللہ لبنان کے ممکنہ زمینی حملے کا مقابلہ کرنا اعلان کیا گیا۔ اورٹیگاس کا لبنان کا دورہ بھی بے سود ثابت ہوا اور اس کے دورے کے اختتام پر صیہونی رژیم نے لبنان کے قصبے بلیدا کی بلدیہ کی عمارت پر فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہاں کا چوکیدار شہید ہو گیا۔ اس واقعے نے پورے لبنان میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور لبنان کے صدر جوزف عون نے لبنان آرمی کو ریڈ الرٹ کرتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم کی ہر ممکنہ فوجی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اگرچہ گذشتہ دنوں سے لبنان کے تمام علاقوں میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کی پروازوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے لیکن صیہونی رژیم اب بھی حزب اللہ لبنان کی ممکنہ جوابی کاروائی سے شدید خوفزدہ ہے۔
اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔