Jasarat News:
2025-04-25@11:36:50 GMT

کتے تاریخ نہیں پڑھتے (پہلی قسط)

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

کتے تاریخ نہیں پڑھتے (پہلی قسط)

صدر ٹرمپ کی آتے ہی حرمزدگی دیکھیں، 26 جنوری 2025 الجزیرہ نے خبر شائع کی کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے بعد وہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک پر نقل مکانی کرنے والے مزید15 لاکھ فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے دبائو ڈالیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تجویز وقتی ہے یا طویل مدتی تو ٹرمپ نے کہا کہ ’’یہ بھی ممکن ہے اور وہ بھی‘‘ تجویز وقتی ہو یا طویل مدتی صدر ٹرمپ کی اس خواہش کی آئینہ دار ہے جس میں وہ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا چاہتے ہیں۔ امریکی صدور کے نزدیک دنیا جب ہی رہنے کی جگہ ہوسکتی ہے جب وہ مسلمانوں سے خالی ہو۔ وہ پوری دنیا میں اس کا تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کل غزہ کے مسلمان ہدف ہیں۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسی ناکام خواہش کرنے والوں نے تاریخ نہیں پڑھی؟ جواب ہے ’’کتے تاریخ نہیں پڑھتے‘‘۔

امریکا میں ڈنگر عام ہیں۔ ان میں سے جو منتخب ہوں امریکی انہیںصدر بنا دیتے ہیں۔ امریکی صدور دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو عالم اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں، دوسرے بھی وہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی خالی کردہ جگہوں کو وہ یہودیوں سے پر کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا ’’جب میں مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسرائیل ایک بہت چھوٹا سا ٹکڑا لگتا ہے۔ میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ یہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ (اسکائی نیوز: 19/8/2024)

اسرائیل کی توسیع کا آغاز وہ غزہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ امن معاہدے سے پہلے جب اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری کرکے اسے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کررہا تھا وہاں یہودی بستیاں بسانے اور ساحل پر ہوٹل وغیرہ بنانے کا پروگرام طے کیا جارہا تھا۔ غزہ کی انہوں نے پلاٹنگ بھی کرلی تھی اور نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرالڈ کشنر وہاں لگژری پیلس کھڑے کرنے میں بہت سنجیدہ تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہاں رکے بھی تھے۔ ان دنوں اہل غزہ کو کسی افریقی ملک میں منتقل کرنے کی کوششیں بھی کررہے تھے اور اس سلسلے میں ان کی بات چیت بھی ہورہی تھی۔ صرف غزہ ہی نہیں صدر ٹرمپ مغربی کنارے میں آباد کاری کے منصوبے کو جائز قرار دے کر یہودی وجود کی توسیع چاہتے ہیں، اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اور نئی آباد کاری کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کھولنا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ اپنے عزائم کے اظہار میں بہت بے حیا ہیں۔ کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھتے۔ اسرائیل کے لیے امریکی سفیر کے طور پر مایک ہاکابی کو نامزد کرتے ہوئے 13 نومبر 2024 کو انہوں نے اپنے سوشل ویب سائٹ اکائونٹ پر کہا تھا ’’یہ اسرائیل اور اسرائیلی عوام سے محبت کرتا ہے، اسی طرح اسرائیلی عوام بھی اس سے محبت کرتی ہے، مایک بغیر تردد کے مشرق وسطی میں امن کے لیے کام کرے گا‘‘۔ بی بی سی نے اسی دن مایک ہاکابی کا ایک بیان یہودی چینل 12 کے توسط سے نقل کیا کہ ہاکابی یہودی وجود اسرائیل کی حمایت میں اپنے بیانات کے لیے مشہور ہے۔ ہاکابی نے 2015 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ: ’’اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کا مطالبہ امریکا کی جانب سے مین ہٹن کے متعلق مطالبے سے زیادہ مضبوط ہے‘‘۔ سوشل میڈیا میں اس کی ایک 2017 کی ویڈیو موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’مغربی کنارہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ یہودا اور سامرہ ہے، آباد کاری نام کی کوئی چیز نہیں یہ سوسائٹی ہے، یہ محلے ہیں، یہ شہر ہیں، قبضہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔

مایک ہاکابی نے یہودی چینل 7 کے ساتھ بات کرتے ہوئے 15 نومبر 2024 کو اپنے ان بیانات کو دہراتے ہوئے کہا کہ: ’’ایسی کوئی بات کرنا میرے لیے ممکن نہیں جس پر مجھے یقین نہ ہو، مغربی کنارے کی اصطلاح استعمال کرنے کے لیے میں ہرگز تیار نہیں ہوں، اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے، میں یہودا اور سامرہ کی بات کر رہا ہوں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ کوئی قابض نہیں ہے‘‘ اس نے کہا: ’’یاد کریں کہ گزشتہ جن چار سال میں ٹرمپ صدر رہا اس دوران ٹرمپ، تاریخ میں کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسرائیل کا حامی رہا، اس نے القدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے، امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے اور گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی قانونی ملکیت قرار دینے سمیت بہت کچھ کیا، اس نے دو ریاستی حل پر کوئی پیش رفت نہیں کی، کیونکہ یہ غیر عملی اور ناقابل عمل حل ہے‘‘، اس نے کہا ’’میں نہیں سمجھتا کہ دو ریاستی حل کا کوئی جواز ہے، میرا سال ہا سال سے یہی موقف ہے، اس موقف سے ٹرمپ متفق ہے اور میں اسی کے تسلسل کی توقع کرتا ہوں‘‘ ان بیانات سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں ٹرمپ کا موقف واضح ہو جاتا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے پر قبضے اور آباد کاری کو جواز دے کر اسرائیل کی توسیع اور گریٹر اسرائیل کو عملی شکل دینا چاہتا ہے۔

صدر ٹرمپ سیکس اور سیاست کو ایک ہی موضوع باور کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا ان کے پاس ایک متعین حل موجود ہے سوائے فلسطینی ریاست کے، چاہے اس ریاست کا حجم کچھ بھی ہو۔ وہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ میں بھی آباد کاری کو باقاعدہ سرکاری طور پر قانونی حیثیت دیے جانے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس بات کی تائید ٹرمپ کی جانب سے ان یہودی آباد کاروں پر عائد پابندی اٹھائے جانے سے بھی ہو رہی ہے جن کی تجاوزات کو امریکا نے بائیڈن کے دور میں غیر قانونی قرار دے رکھا تھا۔ ٹرمپ کے نزدیک خطے میں امن کا مطلب، اسرائیل کا مغربی کنارے کی زمین پر قبضے اور اس پر آباد کاری کو قبول کرنا ہے، اور ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی کو فی الحال کچھ حد تک خود مختار انداز میں بقا کا حق دینا ہے تاکہ وہ سیکورٹی تعاون کے نام پر یہودی وجود کی خدمت جاری رکھے، لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرتی رہے، اور کچھ بلدیاتی خدمات کے ذریعے اتھارٹی کے کارندے لوگوں کو قابو میں رکھیں۔

صدر ٹرمپ کے انداز سے ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اپنی خدائی ان کے سپرد کردی ہے۔ دنیا میں کوئی ان کا مقابل اور رقیب نہیںہے۔ وہ جو چاہتے ہیں کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو وہم میں رکھ کر سبز باغ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں جیسے شیطان اپنے پیروکاروں کو دکھاتا ہے۔ الجزیرہ نے 23 جنوری 2025 کو خبر نشر کی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے چار دن میں وہ کچھ حاصل کیا جو سابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے چار سال میں حاصل نہیں کیا، اگر ان کی انتظامیہ نہ ہوتی تو اس ہفتے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہوتا۔ سعودی عرب، امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر وہ سعودیہ سے سرمایہ کاری کو ایک ہزار ارب ڈالر تک بڑھانے کا مطالبہ کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے سے یہودی وجود کے لیے ’’تحائف کا بستہ‘‘ حاصل کیا ہے یہودی اخبار یدیعوت احرنوت نے 14 جنوری 2025 کو ذکر کیا کہ اسرائیل کے پاس اس بات کا حق ہو گا کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرے تو اس جنگ بندی کو ختم کر سکتا ہے، اور عنقریب وائٹ ہاؤس ان پابندیوں کو اٹھا لے گا جو سابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے جرائم کا ارتکاب کرنے والے بعض آباد کاروں پر عائد کی تھیں، وہ اقوام متحدہ کی ان دو عدالتوں کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم شروع کرے گا جنہوں نے اسرائیل کے خلاف، اور خاص طور پر نیتن یاہو اور ان کے وزیر ِ دفاع گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں تحقیقات یا مقدمات چلائے تھے۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی کوئی چیز نہیں کی انتظامیہ ٹرمپ نے کہا یہودی وجود اسرائیل کی ا باد کاری کی جانب سے چاہتے ہیں کاری کو نہیں ہے کے خلاف کہا تھا کے لیے

پڑھیں:

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا

2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟

لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟

حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔

حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔

حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔

اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔

کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔

نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔

اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful

متعلقہ مضامین

  • ایمن اور منال خان نے فٹنس روٹین اور پہلی کمائی سے متعلق اہم انکشافات کر دیے
  • گلشن نساء بلتستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ایس پی بن گئیں
  • ایمن اور منال خان کی اشتہارات سے ہوئی پہلی کمائی کتنی تھی؟
  • بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ طویل: پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشیں بے نقاب
  • لاہور : بجلی پیدا کرنے والی ملک کی پہلی سڑک تیار
  • لاہور میں بجلی پیدا کرنے والی ملک کی پہلی سڑک تیار
  • پنجاب حکومت کا تاریخ میں پہلی بار گن شوٹنگ کلب کی اجازت دینے کا فیصلہ 
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • ایک ہی بچے کی دو بار پیدائش ؟ میڈیکل کی تاریخ کے حیران کن واقعے کی تفصیلات سامنے آگئیں
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟