کوٹری ریجن دفاتر میں غریب محنت کشوں سے زیادتی قابل مذمت ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سلور کاٹن ملز ورکرز یونین( سی پی اے) حیدرآباد کے صدر سید عابد حسین بخاری، سینئر نائب صدر غلام رسول اور جنرل سیکرٹری اظہر محمدسمیت دیگر نے ای او بی آئی حیدر آباد اور کوٹری ریجن آفسوں میں ایجنٹ اور بروکر مافیا کی جانب سے غریب و ضعیف محنت کشوں، یتیم بچوں اور بیوائوں سے لوٹ مار کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی سے اس کے تدراک کا مطالبہ کیا ہے۔ رہنمائوں نے کہا کہ ای او بی آئی حیدرآباد ریجن اور کوٹری ریجن میں ایجنٹ و بروکرز سے رابطہ کیے بغیر پنشن حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے جبکہ قانون کے مطابق ریجن کو 45دن کے اندر کلیم یا فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن ریجن ہیڈ اور ایجنٹ کے منہ میں جب تک رشوت نہ ڈالی جائے کلیم کی فائل پر کوئی کارروائی نہیں کرتا اور جو بھی مزدور ایجنٹ اور برو کر کا مطالبہ پورا نہ کرے اس کے کلیم کو بھی قانونی جواز کے بغیر بے بنیاد الزامات عائد کر کے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ایجنٹ اور بروکرز کو ریجنل ہیڈ اور عملے کا مکمل اعتماد اور سرپرستی حاصل ہے جس کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم یہ تمام ثبوت ڈائریکٹر جنرل چیئرمین ای او بی آئی کو جلد فراہم کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: او بی ا ئی
پڑھیں:
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی
پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم میں محض 190کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے ۔ 2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی، یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔محکمۂ آبپاشی کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے ، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے ۔محکمہْ زراعت کے مطابق پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔محکمہْ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔