نتائج بورڈ کی ویب سائٹ www.biek.edu.pk پر اپلوڈ کر دیئے گئے ہیں۔ طلباء اپنے نتائج اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی آفیشل اینڈرائڈ ایپ کے ذریعے بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے انٹرمیڈیٹ حصہ اول کامرس ریگولر، آرٹس ریگولر اور خصوصی امیدواروں کے سالانہ امتحانات برائے 2024ء کے نتائج کا اعلان کر دیا۔ ناظم امتحانات زرینہ راشد نے نتائج کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کامرس ریگولر گروپ کے امتحانات میں 28 ہزار 251 امیدواروں نے رجسٹریشن حاصل کی، جن میں سے 27 ہزار 457 امیدوار امتحانات میں شریک ہوئے۔ ان میں سے 8 ہزار 494 امیدوار تمام سات پرچوں میں، 4 ہزار 608 امیدوار چھ پرچوں میں، 3 ہزار 384 امیدوار پانچ پرچوں میں، 2 ہزار 631 امیدوار چار پرچوں میں، 2 ہزار 353 امیدوار تین پرچوں میں، 2 ہزار 141 امیدوار دو پرچوں میں، جبکہ 2 ہزار 90 امیدوار ایک پرچے میں کامیاب ہوئے۔ آرٹس ریگولر گروپ کے امتحانات میں 10 ہزار 500 امیدواروں نے رجسٹریشن حاصل کی، جبکہ 9 ہزار 792 امیدواروں نے امتحانات میں شرکت کی۔

ان میں سے 2 ہزار 818 امیدوار تمام چھ پرچوں میں، 2 ہزار 5 امیدوار پانچ پرچوں میں، 1 ہزار 532 امیدوار چار پرچوں میں، 1 ہزار 312 امیدوار تین پرچوں میں، 915 امیدوار دو پرچوں میں اور 714 امیدوار ایک پرچے میں کامیاب ہوئے۔ خصوصی امیدواروں کے امتحانات میں 109 امیدواروں نے رجسٹریشن حاصل کی اور امتحانات میں شرکت کی۔ ان امتحانات میں 85 امیدوار تمام چھ پرچوں میں، 13 امیدوار پانچ پرچوں میں، 7 امیدوار چار پرچوں میں اور 4 امیدوار تین پرچوں میں کامیاب ہوئے۔ نتائج بورڈ کی ویب سائٹ www.

biek.edu.pk پر اپلوڈ کر دیئے گئے ہیں۔ طلباء اپنے نتائج اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی آفیشل اینڈرائڈ ایپ کے ذریعے بھی معلوم کر سکتے ہیں، جسے گوگل پلے اسٹور پر "BIEK" کے نام سے سرچ کرکے انسٹال کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کو بھی نتائج کی سافٹ کاپی (پی ڈی ایف فائل) انٹر بورڈ کے آفیشل واٹس ایپ گروپ کے ذریعے بھیج دی گئی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251004-03-4

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

غزہ کی تازہ ترین تباہی اور ڈونلڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ دنیا کی موجودہ سیاست کا عکاس ہے ایک ایسا منصوبہ جو بظاہر جنگ بندی اور امداد کا وعدہ کرتا ہے مگر عملی اور قانونی جواز کی جگہ سیکورٹی کی شرائط کے ذریعے فلسطینی خود ارادیت کو پس پشت ڈالنے کا امکان زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی خونریز لہر نے غزہ کو انسانی المیے کے بیچ میں ڈال دیا، لاکھوں بے گھر اور ہزاروں متاثرہ افراد نے بین الاقوامی برادری سے فوری اور غیرمشروط انسانی رسائی کا مطالبہ کیا۔ اسی پس منظر میں ٹرمپ کی پیشکش اور نیتن یاہو کی اس کی تائید، بلاشبہ ایک سیاسی دستاویز ہے جس کا محور اسرائیل کے خدشات کو پْشت پناہی دینا ہے نہ کہ فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت کو یقینی بنانا۔ منصوبے کی مرکزی شقیں، 72 گھنٹے میں یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار چھوڑنے کی صورت میں معافی، غزہ کی بحالی کے لیے بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کی تشکیل، اور حماس کو حکومت سے بالواسطہ یا براہِ راست باہر رکھنا اگرچہ زبانی طور پر امداد اور تعمیر نو کا وعدہ کرتی ہیں مگر ان شرائط کا مطلب سیاسی نمائندگی کا خاتمہ، مقامی مزاحمتی ڈھانچوں کی غیرموجودگی، اور غزہ کے مستقبل پر بیرونی کنٹرول ہے۔ جب کسی علاقے کی منتخب نمائندہ جماعت کو باضابطہ طور پر خارج کر دیا جائے تو امن معاہدہ کا جواز شکوک کی زد میں آتا ہے؛ امن تبھی پائیدار ہو سکتا ہے جب شامل فریقین کو مذاکراتی میز پر اپنا کردار اور وقار حاصل ہو۔

بین الاقوامی ردعمل نے بھی اس منصوبے کی جھلکیوں کو بے نقاب کیا ہے: فلسطینی اتھارٹی کی تعریفی لہجہ سے لے کر فلسطینی اسلامی جہاد کے سخت ردِعمل تک، مسلم ممالک کے مخلوط موقف سے واضح ہوتا ہے کہ اس پلان نے علاقائی مفادات اور طاقت کے توازن کو ہلکا سا بدل دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی طرف سے تحفظات اور ترامیم کی درخواست، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد کے حوالے سے واضح عدم اتفاق، یہ بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کی قبولیت یکساں نہیں۔ مزید براں ٹونی بلیئر جیسے ناموں کا شامل ہونا تاریخی پس ِ منظر کے سبب متنازع ہے، عراق پر مبینہ غلط بیانی اور اس کے بعد آنے والی تنقید نے بلیئر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا دیا ہے، لہٰذا غزہ جیسے نازک معاملے میں ان کا مرکزی کردار شکوک و شبہات کو مزید تقویت دیتا ہے۔

قانونی اور اخلاقی حوالوں سے بھی متعدد اہم سوالات جنم لیتے ہیں: آیا جنگ بندی کو جو سیاسی قیمت چکانی پڑے گی وہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز ٹھیرے گی؟ اجتماعی سزا، جبراً تبادلے کے خدشات، اور غیرجانبدارانہ انسانی رسائی پر شرائط لگانا یہ سب عالمی انسانی حقوق اور جنگی قوانین کے زاویے سے خطرناک ہیں۔ امداد اور تعمیر نو کے وعدے تبھی قابل ِ قبول ہوں گے جب لا محدود اور مشروط نہ ہوں، اور مقامی شفاف نگرانی کے ساتھ منظم ہوں نہ کہ ایسے اداروں کے ذریعے جو مقبولیت یا نمائندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ عسکری حل کبھی دیرپا امن کا ضامن نہیں رہے۔ اگر حماس نے منصوبہ قبول کر لیا تو عارضی طور پر یرغمالیوں کی رہائی اور فوری امدادی فوائد ممکن ہیں؛ مگر مسئلہ کی جڑ مقبوضہ اراضی، عبوری انتظامات، فلسطینی سیاسی حقوق اور مستقبل کی ریاستی حیثیت ان اقدامات سے حل نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب، اگر حماس نے مسترد کیا تو ٹرمپ کی دھمکیوں اور اسرائیل کی فوجی طاقت کی دھمکی کا نتیجہ مزید انسانی نقصان اور خطے میں کشیدگی کی فضا میں اضافہ ہوگا، جسے علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی تنہا پن کے طور پر واپس لوٹا جا سکتا ہے۔

عملی اور پالیسی سفارشات واضح ہیں: اولاً، فوری اور غیرمشروط جنگ بندی، انسانی امداد تک مکمل رسائی، اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بامعنی پیش رفت سب سے فوقیت ہونی چاہیے۔ ثانیاً، غزہ کے مستقبل کا حل کسی بیرونی ’’بورڈ‘‘ یا مشروط ٹیکنیکل کمیٹی کے ہاتھ میں دے کر نہیں نکالا جانا چاہیے؛ اس عمل میں مقامی نمائندوں، سول سوسائٹی، اور فلسطینی اتھارٹی کو لازماً شامل کیا جائے تاکہ خود ارادیت کا احترام برقرار رہے۔ تیسرا، تعمیر نو فنڈز کی نگرانی بین الاقوامی شفاف میکانزم (جیسے اقوامِ متحدہ کے تحت بااختیار مشن) کے ذریعے کی جائے، جس میں بدعنوانی روکنے کے ساتھ ساتھ مقامی بھرتی اور فائدہ اٹھانے کے معیارات طے ہوں۔ چوتھا؛ علاقائی شراکت داروں (مصری، قطری، ترکی، سعودی اور دیگر) کو مذاکرات میں مؤثر اور غیرجانبدار ثالث کے طور پر شامل کیا جائے، نہ کہ محض طاقت کے ترجمان۔ آخر میں، مسلم امہ اور بین الاقوامی برادری کو متحد اور اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے: انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور فلسطینی حق ِ خود ارادیت کے دفاع کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔

غزہ میں خون ریزی نے واضح کر دیا ہے کہ وقتی عسکری فتوحات یا سیاسی دستاویزات سے زیادہ ضروری انسانی انصاف، قانونی جوابدہی اور ایک جامع سیاسی حل ہے۔ جو امن انصاف اور وقار کے ساتھ قائم نہ ہو، وہ عارضی ہوگا اور اسی عارضیت کی قیمت غزہ کے معصوم شہری آج چکا رہے ہیں۔ عالمی برادری، علاقائی طاقتیں اور بالخصوص مسلم ممالک پاکستان سمیت اس وقت تاریخی موقع رکھتے ہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو اقتدار و مفادات سے بالاتر رکھتے ہوئے ایک ایسی راہ تلاش کریں جو خون کو رکا سکے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق واپس دلوا سکے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • امریکی شہری نے 5 لاکھ 64 ہزار 219 ڈالر کی لاٹری جیت لی، رقم سرمایہ کاری پر لگانے کا اعلان
  • لفتھانزا کا چار ہزار ملازمتوں میں کٹوتی کا اعلان
  • ماسٹر آئل انٹر کلب کرکٹ ٹورنامنٹ،عالمگیر جمخانہ سیمی فائنل میں
  • جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج
  • پنجاب میں ایم ڈی کیٹ امتحان 26 اکتوبر کو منعقد ہوگا، انتظامات مکمل کر لیے گئے
  • مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں سے درخواستیں طلب کر لیں
  • شبلی فراز کی نااہلی کے بعد خالی نشست پر انتخابی شیڈول جاری
  • انٹر بورڈ کراچی کا گیارہویں سائنس پری انجینئرنگ کے نتائج کااعلان
  • راولپنڈی؛این اے 53اور پی پی 10میں دھاندلی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے منظور
  • سعودی وزارت صحت کے لیے اقوام متحدہ کا انٹر ایجنسی ٹاسک فورس ایوارڈ