Nai Baat:
2025-09-18@18:03:41 GMT

تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت

تبصرہ … شکوہ و شکائت کی تمہید ہے، اور تنقید … اس پر مہرِ تصدیق! شکوہ … دراصل انسان کی توقعات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان، انسانوں سے توقعات ہی کم وابستہ کرے تو شکوہ و شکایت کا موقع کم کم نمودار ہوگا۔
دراصل انسان اپنے بارے میں ایک مخصوص رائے قائم کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ لوگ اْس کی اِس رائے سے اتفاق کریں۔ لازم نہیں کہ سب لوگ ہمارے بارے میں ہماری رائے سے متفق ہوں۔ جب لوگ اپنے قول و فعل سے ہمارے بارے میں ہماری ہی رائے سے انحراف کرتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ یہ دکھ الفاظ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے تو شکوہ اور شکایت کی کوئی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اْس کے اندر کوئی صفت ہے تو اْس صفت کی تعریف اور پذیرائی صرف اور صرف اس صفت کے شناسا لوگوں کے ہاں ہی ممکن ہے۔ اسے جاننا چاہیے کہ جو لوگ اس صفت سے آشنا ہی نہیں، وہ اْس کی تعریف کیوں کر کر سکیں گے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفت کے شناسا لوگ بھی دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے، جو بے لوث ہے۔ وہ اِس صفت کی تبلیغ و ترویج میں بے لوث ہے ، بے غرض ہے، درجہِ اخلاص پر فائز ہے، وہ خود سے خود کو نکالنے پر قادر ہے۔ ایک دوسرا گروہ ہے ، جو ہے تو اس صفت کا شناسا ، لیکن وہ اس صفت کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کا نفاذ بھی لازم تصور کرتا ہے۔ جب وہ اپنے نفاذ میں کوئی کمی محسوس کرتا ہے تو اعترافِ صفت کی بجائے اعتراضِ صفت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر اسے حاسد کہا جائے تو وہ خود پر حسد کے الزام کا انکار کرتا ہے ، لیکن اْس کی طرف سے صفت کا اِنکار دراصل حسد کے اظہار ہی کا ایک ثبوت ہوتا ہے۔

اخلاص ایک صفت ہے۔ یہ صفت کم یاب ہے ، اس لیے کم کم لوگوں کودست یاب ہے۔ یہ خوش بختوں کا نصیبہ ہے۔ اب اس صفت کی ستائش اگر مفاد پرست گروہ میں چاہی جائے تو یہ ایک ایسی توقع ہے جو لغو بھی ہے اور اہلِ اخلاص کے ہاں قابل ِ گرفت بھی۔ اخلاص بندے کا اللہ کے ساتھ ایک معاملہ ہے، مخلوق کو اس معاملے کی بھنک کیوں پڑے؟ اخلاص ایک خوشبو ہے اور اس خوشبو کو اہلِ اخلاص ہی پہنچانتے ہیں۔ اہلِ دنیا کے قوتِ شامہ بھی قوتِ حافظہ کی طرح کمزور ہوتی ہے۔
گلے اور شکوے سے دْور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکر کو تنقید کا خوگر نہ ہونے دے۔ وہ خود کو دوسروں میں نقص کی بجائے خوبی دیکھنے کا پابند کرے۔ جب بھی وہ کوئی خوبی دیکھے ، جہاں بھی دیکھے ، جس میں بھی دیکھے… فراخدلی سے اس کی تعریف و توصیف کرے۔ اس کی یہ تعریف دراصل خوبی عطا کرنے والی ذات کی تعریف ہے۔ صفت تو سورج کی کرن کی طرح ہوتی ہے… ہر کرن کا ماخذ و منبع سورج ہے۔ کرن کسی اندھیری جگہ پر سورج ہی کا ایک تعارف ہے۔ کرن کی توصیف دراصل سورج ہی کی تعریف کا عنوان ہوتا ہے۔

خیال… ہر دم رواں لہر کی طرح ہے۔ تنقید اس لہر کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔ بعض اوقات تبصراتی رکاوٹ خیال کے وجود میں اتنا بڑا گھاؤ ڈال دیتی ہے کہ خیال کی لہر ایک بھنور کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بھنور کی لپیٹ میں آئی ہوئی لہر اپنے فرضِ منصبی سے دْور ہو جاتی ہے۔ بھنور ڈبونے کے کام آتا ہے، لہر پار لگانے کے لیے آتی ہے۔
تبصرہ ، تنقید اور شکوہ وشکائت انسان کی قوتِ تخلیق کو پست درجے پر لے آتی ہیں۔ تنقید کے خوگر ذہن کا تخلیقی جوہر گہنا جاتا ہے، مرکز سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور مرکز گریز قوتیں ایسے ناقد مزاج کو اپنے دائرے میں داخل کر لیتی ہیں۔ مثبت سوچ داخل دفتر ہو جاتی ہے اور منفی سوچ باہر بازاروں میں بلند بانگ ہو جاتی ہے۔
تبصرہ و تنقید اور شکوہ وشکایت سے اپنا دامن بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خاموشی کی راہ اختیار کرے۔ خاموشی کسی بھی غیر مہذب بات کا مہذب ترین جواب ہے۔ خاموشی وہ پہلا پہرہ ہے جو انسان اپنی فکری آوارہ گردی کے گرد قائم کرتا ہے۔ خاموش صفت انسان ان تمام برائیوں سے بچ جاتا ہے جن کا تعلق صرف بولنے سے ہے۔ خاموش رہنے والا انسان… غیبت ، شکوہ ، شکائت ، طنز، تشنیع اور اس قبیل کے تمام منفی تبصرہ جات کی لت میں پڑنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خواہش بولتی ہے، قناعت خاموش رہتی ہے۔

تبصرہ و تنقید کرنے والا … زندگی کے حسن کا شاہد نہیں ہو سکتا۔ تنقید کا خوگر مشیت آشنا نہیں ہوتا۔ جسے مشیّت آشنا کرنا ہوتا ہے، اسے پہلے خاموشی کی خلعت عطا کی جاتی ہے۔
انسان تمام عمر اپنے لفظوں کی گرفت میں ہوتا ہے۔ بولنے والا شخص مسلسل گرفت میں ہے۔ لفظوں سے کھیلنے والا خود کھلونا بن جاتا ہے ، دوسروں کے ہاتھ میں! خاموش شخص مردِ آزاد ہے… اپنی سی رائے رکھتا ہے … ! متاثر کرنے والا، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لفظوں پر سواری کرنے والا لوگوں کی رائے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ اسے راستہ نہ دیں، وہاں اس کی زبان پر شکوہ اور شکایت کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔

تبصرہ کرنا… راہ چلتے ہوئے الجھنے کے مترادف ہے۔ تبصرہ کرنے والا ایک پرایا جھگڑا مول لیتا ہے۔ انسان اپنے تبصرے میں کہے ہوئے الفاظ میں خود کو گروی رکھ دیتا ہے۔ دراصل الفاظ انسان کی کسی باطنی کیفیت کا اظہار ہوتے ہیں۔ وقت بدلنے سے باطنی کیفیت بدل جاتی ہے، رائے بدل جاتی ہے… لیکن تبصرہ جاتی الفاظ نہیں بدلتے … وہ اس کے انمٹ ماضی کی طرح اس کی سابقہ شناخت کے ساتھ چپک کر رہ جاتے ہیں۔ کیفیت لہر کی طرح ہوتی ہے ، اچھی یا بری، جیسی بھی ہے ، گزر جاتی ہے… اس کیفیت میں کہے ہوئے الفاظ ٹھہر جاتے ہیں … اور وہ الفاظ انسان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔
قوتِ گویائی ایک نعمت ہے… اس نعمت کا شکر ، یہ ہے کہ اسے تعریف و توصیف میں صرف کیا جائے۔ تبصرہ و تنقید ، شکوہ و شکائت میں الفاظ صرف کرنا، قوت ِ گویائی کا اسراف ہے… اور اسراف کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ رحمان کے بندے احسان کرتے ہیں … اور احسان طبعاً خاموش ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہو جاتا ہے کرنے والا کی تعریف جاتی ہے ہوتا ہے کرتا ہے ہے اور صفت کی اس صفت کی طرح

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • 2 اور ممالک بھی پاکستان کے ساتھ اسی طرح کےمعاہدے کرنے والے  ہیں، سعودی عرب اور پاکستان کے دفاعی معاہدے پر حامد میر کا تبصرہ
  • ’ایکس‘ اکاؤنٹ کے معاملے پر عمران خان سے جیل میں تفتیش: ’وی ٹاک‘ میں اہم خبروں پر تبصرہ
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟