پاکستان میں خواتین آزادی کی خواہش میں استحصال کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک تصویرسوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز رہی، جس میں ایک شخص پارلر میں خواتین کے گھیرے میں بیٹھا تھا، جو اسے مینی کیور اور پیڈی کیور کی پیشہ ورانہ خدمات فراہم کر رہی تھیں۔ ایک اور شخص نے اس تصویو کو اس مقصد سے پوسٹ کیا کہ وہ خواتین کو یہ سمجھا سکے کہ اگر وہ گھر سے باہر نکلنا چاہتی ہیں اور آزادی کی خواہشمند ہیں تو ان کا انجام ایسا ہوگا۔
سوشل میڈیا صارفین کی کثیر تعداد کا یہ ماننا تھا، ''حسن کے سحر نے ہم کو الجھایا ایسا‘‘ کے مانند آزادی کے خواب نے خواتین کو پھنسایا ایسا کہ اب نہ کوئی گلہ، نہ کوئی شکایت باقی۔ یعنی آزادی کا جو جھوٹا خواب خواتین کو دکھایا گیا وہ اس کے سحر میں اس قدر گرفتار ہیں کہ وہ یہ جان ہی نہیں پا رہیں کہ وہ دراصل استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔
(جاری ہے)
جس کی رنگینی میں وہ اس قدر کھو گئی ہیں کہ سلاسل بھی ان کے لیے خوابوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان کے مطابق ان خواتین کو گھر میں رہنے والے شوہر کے کام کرنا منظور نہیں لیکن کسی پارلر میں آنے والے 'نامحرم کلائنٹ‘ کے پاؤں صاف کرنا قبول ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ ان پارلرز میں کام کرنے والی خواتین معاشرتی اقدار کو نہ صرف ٹھیس پہنچا رہی ہیں بلکہ معاشرے میں بے حیائی کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔اس رائے کے پیچھے معاشرتی تعصبات اور قدامت پسند نظریات کارفرما ہیں، جو خواتین کی آزادی اور اس کی خود مختاری کو صحیح معنوں میں سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں عورت اگر اپنے حقوق قانونی طور پر حاصل بھی کر لے تب بھی کہیں یہ کہیں معاشرتی سطح پر اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی آزادی اور خود مختاری کا مسئلہ ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے، یہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ خواتین کی آزادی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے گی۔
اس لیے ایک مخصوص طبقہ یہ ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے کہ عورتوں کا گھر سے باہر کرنا کس قدر نقصان دہ ہے۔ سیمون ڈی بووار اپنی کتاب دا سیکنڈ سیکس میں لکھتی ہیں، ''عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنتی ہے‘‘۔معاشرے نے کچھ ایسے سانچے بنائے ہوتے ہیں، جن میں ڈھلی عورت ہی قابل قبول ہوتی ہے اور جو خواتین ان سانچوں میں فٹ نہیں آتیں وہ معاشرتی اقدار کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔
عورت کی حیثیت اور آزادی کا تعین سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ کیا کسی خاتون کا باہر کام کرنا اس کی آزادی ہے یا استحصال؟ کیا محض اس بنیاد پر کہ ایک عورت کسی سیلون میں کام کر رہی ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عزت کی زندگی چھوڑ کر غیر مردوں کے قدموں میں بیٹھی ہے؟ یا پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور کیوں ہے؟یہ دیکھ کر مجھے خوشی بھی محسوس ہوئی کہ عورت کا استحصال اس معاشرے کے لیے کس قدر نا قابل قبول ہے۔
لیکن اس خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ ملال بھی ہے۔ ملال کہ یہ درد تب محسوس نہیں ہوتا جب عورت کا معاشی استحصال ہورہا ہو۔ ملال کہ ہم گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی عورت کا دکھ اس شدت سے محسوس نہیں کرتے۔ ملال کہ تیزاب گردی کا شکارعورتوں کے مسخ شدہ چہروں میں یہ معاشرہ اپنا عکس دیکھنے سے قاصر ہے۔ ملال کہ ہماری سڑکیں، چوراہے، رات کے اندھیرے اور دماغوں کے نہاں خانے ہماری عورتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ لیکن پھر بھی میں خوش ہوں کہ ہم عورت کا استحصال کبھی قبول نہیں کریں گے۔معاشرے میں کام کی نوعیت کو اچھے اور برے کے پیمانے پر پرکھنے کا رجحان ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ کسی بھی پیشے کی قدر اس بات پر نہیں کی جاتی کہ وہ معاشرے کے لیے کتنا مفید ہے، بلکہ اس کا تعلق زیادہ تر اس سے ہوتا ہے کہ اسے کون انجام دے رہا ہے اور اس کا سماجی و معاشی پس منظر کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ڈاکٹر یا انجینیئر کو عزت دی جاتی ہے، جبکہ صفائی کرنے والے، نرسنگ کرنے والے یا بیوٹی پارلر میں کام کرنے والے افراد کو کم تر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ہر پیشہ اپنی جگہ ضروری ہے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ڈاکٹر بی آر امبیڈکرلکھتے ہیں، ''محنت کی عظمت کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔
جو کوئی بھی محنت کرتا ہے، وہ عزت کا مستحق ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ محنت کی عظمت کو کس حد تک قبول کر تا ہے۔ یعنی وہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ کام کی نوعیت اس کی اچھائی یا برائی کا پیمانہ نہیں۔ محنت کر نے والا چاہے کسی دفتر میں بیٹھا ہو، کسی کوئلے کی کان میں یا کسی بیوٹی پارلر میں وہ کسی نہ طرح معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔پاکستان میں عدم مساوات کی صورتحال کو دیکھیں تو ورلڈ اکنامک فورم (2024) کے مطابق پاکستان کا جینی کو ایفیشنٹ (Gini Coefficient) 33.
ایک عورت جو کسی بیوٹی پارلر میں کام کر رہی تووہ بھی اپنی محنت اور عزم سے معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور معاشی لحاظ سے بھی خودمختاری کا حصول چاہتی ہے۔ اب ایسے میں کسی پارلر میں مرد و خواتین دونوں آتے ہیں تو وہ صرف اپنا کام کر رہی ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی سیلون میں مرد حضرات خواتین کے بال کاٹ رہے ہوتے ہیں یا میک اپ کر رہے ہوتے ہیں، درزی حضرات خواتین کے کپٹرے سلائی کرتے ہیں، بیرے ہوٹل میں خواتین کو کھانا پیش کرتے ہیں اور پھر برتن بھی دھوتے ہیں، تو کیا ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ استحصال کا شکار ہو رہے ہیں؟ اور آزادی کے نام پر گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر باہر کی عورتوں کو کھانا پیش کر رہے ہیں۔
اگر ان مردوں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا تو ہماری ان پیاری بیٹیوں کو کیوں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، جو محنت کر رہی ہیں۔ جن کے لائے ہوئے پیسوں سے شاید باپ کی دوا آتی ہو، بیٹی کی اسکول کی فیس جاتی ہو، یا گھر کا کرایہ ادا ہوتا ہو۔ غلط گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی عورت نہیں، غلط وہ سوچ ہے جو اسے ہمیشہ نیچا دکھانے میں لگی رہتی ہے۔ اپنی سوچ بدلیں!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں میں خواتین میں کام کر پارلر میں خواتین کو کام کرنے کی آزادی ملال کہ رہی ہیں کا شکار عورت کا میں کا ہے اور کر رہی رہا ہے کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
جرمن چانسلر کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔
مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا، دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزی کہاکہ ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے، ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔