Jasarat News:
2025-11-03@16:11:31 GMT

یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون

پاکستان جب سے بنا ہے اس میں شور کرنے والوں اور شور سننے والوں کا تناسب مستقل ہے۔ پیکا ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اس تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اب تک حکومت شور کرنے والے پریشر ہارن پر پا بندی لگاتی آئی ہے اب یہ الزام فیک نیوز شور کرنے والے صحافیوں، میڈیا ہائو سز، سوشل میڈیا، وی لاگرز اور ناقدین پر بھی گرفت کی جاسکے گی۔ اب جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوگی چاہے دو محبت کرنے والوں کے بیچ بولا گیا ہو۔ جھوٹ کے پائوں ہوں یا نہ ہوں اسے اب سچ سے آگے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے، جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟، جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ ہو؟ لیکن معاملہ نیتوں کا ہے۔ یہ پابندی ان کی طرف سے ہے جو خود جھوٹ کے چمپئن ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ جھوٹ کے نام پر سچ پر گرفت کی جائے گی، ناقدین کو خاموش کیا جائے گا۔ بات آگے بڑھے اس سے پہلے عالمی ادب سے ایک مختصر کہانی ملاحظہ فرما ئیے:

کچھ دن پہلے میرے آفس روم میں، میرے بچوں کی نینی (یولیا واسیلیونا) اپنا حساب کرنے آئی۔ میں نے اس سے کہا: ’’بیٹھو، یولیا… آؤ، حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ تمہیں اکثر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تم اتنی شرمیلی ہو کہ خود نہیں مانگتی۔ خیر، ہم نے ماہانہ تیس روبل طے کیے تھے‘‘۔

یولیا نے کہا: ’’چالیس‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، تیس… میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ میں ہمیشہ نینی کو تیس روبل ہی دیتا ہوں‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے‘‘
میں نے پوچھا: ’’تم نے کتنے مہینے کام کیا؟
یولیا نے جواب دیا: ’’دو مہینے اور پانچ دن‘‘

میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، دو مہینے۔ میرے پاس یہی درج ہے، تو تم ساٹھ روبل کی حق دار ہو۔ لیکن ہم اتوار کے نو دن منہا کریں گے، کیونکہ تم نے ان دنوں میں کولیا کو نہیں پڑھایا، بس اس کے ساتھ رہی تھیں۔ پھرتم نے تین دن کی چھٹی بھی لی تھی‘‘۔

یولیا واسیلیونا کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور اس کی انگلیاں کپڑوں میں الجھنے لگیں، مگر اس نے کوئی شکایت نہ کی۔

میں نے مزید کہا: ان تین چھٹیوں کے بارہ روبل کم ہوں گے۔ کولیا چار دن بیمار تھا، تو تم نے صرف فاریہ کو پڑھایا، سات روبل اس کے کم ہوںگے۔ پھر تین دن تمہارے دانت میں درد تھا، تو بیگم صاحبہ نے تمہیں دوپہر تک آرام کرنے دیا۔ تم نے دوپہر کے بعد پڑھایا، اس کے بھی بارہ روبل کم کریں تو کل انیس روبل کم کر کے تمہارے اکتالیس روبل بنتے ہیں، ٹھیک؟‘‘

یولیا واسیلیونا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس کی ٹھوڑی کانپنے لگی، مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔

میں نے مزید حساب لگایا: ’’نئے سال سے پہلے تم نے ایک کپ اور پلیٹ توڑ دی تھی، اس کے بھی چھے روبل کٹیں گے۔ پھر، کولیا نے تمہاری لاپروائی کے سبب درخت پر چڑھ کر اپنی جیکٹ پھاڑ لی، اس کے دس روبل کم ہوں گے۔ نوکرانی نے ایک جوتا چوری کر لیا اور یہ سب کچھ دیکھنا تمہاری ذمے داری تھی، تو اس کے پانچ روبل اور کم کرنے پڑیں گے۔ اور 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے تھے‘‘۔

یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کی: ’’میں نے نہیں لیے تھے‘‘۔
میں نے کہا: مگر میرے پاس ریکارڈ میں لکھا ہے‘‘
وہ بولی: ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں‘‘۔
میں نے حساب مکمل کیا: ’’اکتالیس سے ستائیس کم کریں تو باقی چودہ روبل بچتے ہیں‘‘۔
یولیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس کی لمبی خوبصورت ناک پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: ’’میں نے صرف ایک بار تین روبل ادھار لیے تھے، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔
میں نے چونک کر کہا: ’’واقعی؟ میں نے تو یہ ریکارڈ میں نہیں لکھا! تو چودہ میں سے تین نکال کر گیارہ بچتے ہیں۔ لو، یہ لو تمہارے گیارہ روبل!‘‘
میں نے سکے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں جیب میں ڈال لیا اور آہستہ سے کہا:
’’شکریہ‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’کس چیز کا شکریہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’پیسوں کا‘‘۔

میں نے کہا: ’’لیکن میں نے تو تمہیں دھوکا دیا، تم سے لوٹ مار کی، تمہارا حق مارا! اور تم پھر بھی شکریہ ادا کر رہی ہو؟‘‘

اس نے کہا: ’’دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا‘‘۔

میں نے حیرت سے کہا: ’’کیا؟ تمہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا؟ کمال ہے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا، تمہیں سبق سکھا رہا تھا! یہ لو، تمہارے اصل اسی روبل، جو میں نے تمہارے لیے لفافے میں رکھے تھے!‘‘
میں نے رقم اس کے حوالے کی اور مزید کہا: لیکن کیا تم اتنی بے بس ہو؟ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ تم خاموش کیوں رہیں؟ کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ تم اپنا حق مانگنے سے بھی قاصر ہو؟ کیا تم واقعی اتنی بے بس ہو؟‘‘

یولیا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’ہاں، ایسا ممکن ہے‘‘۔

میں نے اسے بغور دیکھا، پھر سوچنے لگا: کتنا دردناک ہے اس دنیا میں کمزور ہونا!

پیکا ترمیمی بل پر عمل درآمد کی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سچ بولنے والوں کا علاج یو لیا کے حساب کتاب کی طرح کیا جائے گا تب صحافی، میڈیا ہائوسز، اینکر پرسنز اور ناقدین یو لیا کی طرح ہی کمزور اور بے بس ہوں گے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟ جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ دی جائے؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں نے کہا کیوں نہ

پڑھیں:

ٹرمپ کی قانون شکنی اور لاپرواہی کا مقابلہ کریں، اوباما کا ڈیموکریٹس سے خطاب

کانگریس کے ریپبلکن رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اوباما نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی انتہاپسندانہ پالیسیوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے ڈیموکریٹس سے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قانون شکنی اور بے پروائی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اوباما نے ڈیموکریٹک ووٹروں پر زور دیا کہ وہ آئندہ ہفتے ہونے والے انتخابات میں ٹرمپ انتظامیہ کی بے قاعدگیوں اور عدم توجہی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے ورجینیا اور نیو جرسی کے گورنر امیدواروں، ابیگل اسپین برگر اور میکی شریل کے لیے منعقدہ انتخابی جلسے میں ٹرمپ حکومت کے خلاف سخت تنقید کی۔

اوباما نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک اور ہماری سیاست اس وقت مکمل اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے، یہ جاننا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ کہاں سے آغاز کیا جائے، کیونکہ روزانہ وائٹ ہاؤس میں ایسی غیر قانونی، غیر محتاط، ظالمانہ اور دیوانیانہ حرکتیں کی جا رہی ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی غیر واضح محصولات (ٹریف) پالیسیوں اور مختلف شہروں میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

اوباما نے کانگریس کے ریپبلکن رہنماؤں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ٹرمپ کی انتہاپسندانہ پالیسیوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اوباما نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ کاروباری رہنما، وکلا کی فرمیں، اور یونیورسٹیاں ٹرمپ کو راضی کرنے کے لیے کس قدر تیزی سے اس کے سامنے جھک گئیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ٹرمپ اس وقت روز گارڈن کی تزئین و آرائش اور 300 ملین ڈالر کے اخراجات پر توجہ دے رہا ہے، جبکہ حکومت کو بند ہوئے ایک ماہ سے زیادہ گزر چکا ہے۔

اوباما نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ 47 ملین سے زیادہ امریکی، جن میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ شامل ہے، غذائیت بخش خوراک تک قابلِ اعتماد اور سستی رسائی سے محروم ہیں، زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث مزید خاندان خوراک کے لیے فوڈ اسٹیمپ (کوپن) پروگرام پر انحصار کر رہے ہیں، فوڈ اسٹیمپ پروگرام کم آمدنی والے خاندانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

اوباما نے یاد دلایا کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں اس پروگرام تک رسائی پر پابندیوں اور اصلاحات کی تجاویز سامنے آئیں جنہیں ڈیموکریٹس اور سماجی کارکنوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اوباما ماضی میں بھی کئی بار ٹرمپ کی سماجی و فلاحی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے سماجی تحفظ کے اقدامات کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ امریکہ کے دو مرتبہ منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما اب بھی ڈیموکریٹس کے درمیان بے حد مقبول ہیں، اور ان کے ٹرمپ مخالف بیانات امریکی عوام کی رائے پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا نئے انوائرمنٹ ایکٹ لانے کا مطالبہ
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہو گیا
  • آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہوگیا ہے، وزیرِ قانون آزاد کشمیر
  • لشکری رئیسانی کا مائنز اینڈ منرلز بل سے متعلق سیاسی رہنماؤں کو خط
  • ٹرمپ کی قانون شکنی اور لاپرواہی کا مقابلہ کریں، اوباما کا ڈیموکریٹس سے خطاب
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے شہید عادل حسین کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، علامہ صادق جعفری