امریکا میں مسافر بردار تجارتی طیارہ لاپتا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
امریکا میں مسافر بردار طیارہ یونالاکلیٹ سے نوم کے درمیان سفر کرتے ہوئے لاپتا ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاستی محکمہ برائے عوامی تحفظ نے بتایا کہ ایک چھوٹا ٹربوپروپ سیسنا کیراؤین طیارہ الاسکا میں لاپتا ہوگیا۔
فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹ فلائٹ رڈار24 نے دعویٰ کیا ہے کہ طیارے کے پرواز بھرنے کے 38 منٹ بعد کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔
یہ طیارہ بیئرنگ ایئر کی ملکیت ہے جو تقریباً 39 طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ایئرلائن کمپنی نے طیارہ گمشدگی پر فوری طور پر تبصرہ نہیں کیا۔
اس طیارے میں میں نو مسافر اور ایک پائلٹ سوار تھے۔ ریسکیو ٹیمیں طیارے کے اُس آخری معروف مقام تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔
ریسکیو آپریشن تاحال جاری ہے تاہم لاپتا طیارے کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
خیال رہے کہ الاسکا میں دیگر امریکی ریاستوں کے مقابلے میں ایئر ٹیکسی اور چھوٹے طیارے بڑی تعداد میں استعمال ہوتے ہیں۔
اس ریاست میں طیارہ حادثات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ پہاڑی علاقوں کا ہونا اور تیزی سے بدلتے موسمی حالات ہیں۔
الاسکا میں آبادیوں تک سڑکیں نہیں جاتیں جس کی وجہ سے یہاں افراد اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے چھوٹے طیارے استعمال کیے جاتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: بھارت نے برطانوی خاندانوں کو غلط لاشیں بھیج دیں
حالیہ ایئر انڈیا طیارہ حادثے کے بعد متاثرہ برطانوی خاندانوں پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی، جب انہیں معلوم ہوا کہ بھارت نے ان کے ’پیاروں کی جو باقیات‘ برطانیہ بھیجیں، وہ ان کے پیاروں کی نہیں تھیں بلکہ کسی اور کی تھیں۔ بعض تابوتوں میں نامعلوم افراد کی لاشیں تھیں جبکہ ایک کیس میں 2 مختلف افراد کی باقیات کو ایک ہی تابوت میں رکھ دیا گیا۔
برطانوی اخبار’ دی گارڈین‘ کے مطابق یہ انکشاف معروف ایوی ایشن وکیل جیمز ہیلی پراٹ کی جانب سے کیا گیا ہے، جو برطانوی متاثرین کے اہل خانہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ حادثہ 12 جون کو پیش آیا جب ایئر انڈیا کا لندن جانے والا بوئنگ 787 ڈریم لائنر احمد آباد ایئرپورٹ سے اڑان بھرتے ہی ایک میڈیکل کالج کی عمارت پر جاگرا۔ حادثے میں 241 مسافر ہلاک ہوئے، جن میں سے 52 برطانوی شہری تھے۔ زمین پر موجود مزید 19 افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوئے۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، طیارے کے دونوں انجنوں کو ایندھن فراہم کرنے والے سوئچز اچانک ’کٹ آف‘ پوزیشن پر چلے گئے، جس سے ایندھن کی فراہمی رک گئی۔ یہ سوئچز کسی نے کٹ آف کیے تھے یا خود ہی کٹ آف ہوگئے تھے، یہ معاملہ بھی ابھی تک ایک معمہ بنی ہوا ہے۔
ڈی این اے شناخت میں غلطیاں اور خاندانوں کی اذیتوکیل ہیلی پراٹ کے مطابق ایک متاثرہ خاندان کو جب تابوت موصول ہوا، تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ لاش کسی نامعلوم مسافر کی تھی، جس کے بعد انہیں تدفین کا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔
ایک اور کیس میں 2 مختلف افراد کی باقیات کو ملا کر ایک ہی تابوت میں بھیج دیا گیا۔ بعد میں شناخت کے بعد انہیں الگ کیا گیا تاکہ جنازہ ادا کیا جا سکے۔
ڈی این اے میچنگ کا مرحلہیہ غلطیاں اس وقت سامنے آئیں جب ڈاکٹر فیونا وِلکاکس، لندن انر ویسٹ کی سینئر کورونر، نے تابوت میں موجود لاشوں کا ڈی این اے متاثرہ خاندانوں کے نمونوں سے میچ کرنے کا حکم دیا۔
متاثرہ خاندانوں کی فریادگلوسٹر سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان، جن کے 6 اراکین (عقیل نانبھاوا، ہناء وراجی اور ان کی 4 سالہ بیٹی سارا) حادثے میں جاں بحق ہوئے، نے بتایا کہ وہ لاشوں کی شناخت پر تو مطمئن ہیں، لیکن انہیں اس سارے عمل میں شدید بدانتظامی اور عدم شفافیتکا سامنا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حادثے کے ایک ہفتے کے اندر شناخت موصول ہوئی اور ہم نے اپنے پیاروں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بھارت میں دفن کیا۔ لیکن اس تمام عمل میں شفافیت کا فقدان تھا، رابطہ ناکافی تھا، اور اہل خانہ کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا۔ ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ہر متاثرہ خاندان کے لیے سچائی، شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
برطانوی حکومت کا ردعملوکیل ہیلی پراٹ نے بتایا کہ متاثرہ خاندان اپنے ممبر پارلیمنٹ (MPs) سے رابطے میں ہیں۔ برطانوی وزارتِ خارجہ اور وزیرِ اعظم کی آفس سے بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ثبوتوں کے مطابق، لاشوں کی شناخت اور حوالگی کا عمل انتہائی ناقص رہا۔ ہم ان خامیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
بھارتی حکومت کا مؤقفبھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ ہم نے رپورٹ دیکھی ہے اور برطانیہ کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ تمام باقیات کو مکمل پروفیشنلزم اور عزت کے ساتھ ہینڈل کیا گیا۔
اسپتال والے کیا کہتے ہیں؟احمد آباد کے سول اسپتال کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ لاشوں کی شناخت مکمل سائنسی طریقے سے کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیل بتانے سے انکار کر دیا۔
ایئر انڈیا کا ردعملایئر انڈیا نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ شناخت کی کارروائی میں ایئر لائن شامل نہیں تھی، یہ ذمہ داری اسپتال کی تھی، جنہوں نے لواحقین کی شناخت کی تصدیق کی۔
اہم سوالات جو ابھر رہے ہیںاگر ایک خاندان کو غلط لاش دی گئی ہے، تو وہ کس کی لاش ہے؟
کیا دوسرے خاندانوں کو بھی غلط معلومات یا تابوت دیے گئے ہیں؟
لاشوں کی شناخت میں غلطیوں کے لیے کون ذمہ دار ہے، اسپتال، مقامی حکام یا بین الاقوامی ادارے؟
کیا وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا جائے گا؟
درد، سوالات اور انصاف کی تلاشیہ واقعہ صرف ایک فضائی حادثہ نہیں رہا، بلکہ متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک دوہری اذیت بن گیا ہے، جس میں انہیں اپنے پیاروں کی باقیات کی شناخت کے لیے مزید انتظار، صدمے اور غیر یقینی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
متاثرہ خاندانوں کا مطالبہ نہایت واضح ہے۔
شفافیت، جوابدہی، اور یہ یقین کہ ان کے پیاروں کو عزت کے ساتھ واپس لایا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں