حکومت معاشی استحکام لائی ہے، معیشت کے اعدادوشمار مثبت ہیں، مفتاح اسماعیل
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سابق وزیرخزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آیا ہے۔ معیشت کے اعدادوشمار مثبت ہیں اور حکومت نے معاشی بحالی کے لیے حقیقی اقدامات کیے ہیں۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگرچہ ملک میں میکرو اکنامک استحکام آیا ہے لیکن حکومت زیادہ معاشی ریفارمز نہیں لا سکی جس سے ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں اعداد و شمار سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایک سال پہلے شرح سود 22 فیصد تھا، آج 12 فیصد ہے۔ ایک سال پہلے مہنگائی بڑھنے کی شرح 24 فیصد تھی، اس سال کا تخمینہ 10 فیصد ہے، بلکہ شاید اس سے بھی کم ہو جائے‘۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر ایک جگہ مستحکم ہے اور اسٹیٹ بینک بھی ڈالرز خرید رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے مصنوعی نہیں بلکہ اصل اقدامات کیے ہیں، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بھی ایک ہی جگہ پر مستحکم کھڑی ہے، یہ تمام اشاریے تو پازیٹیو ہیں۔ لیکن یہاں سمجھنا ضروری ہے کہ معیشت کے اندر بہت سے اسٹیٹسٹکس ہوتے ہیں اور حکومتی وزرا انہی چیزوں پہ فوکس کر رہے ہیں جو پازیٹیو ہوئی ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈران کا انہی چیزوں پہ فوکس ہے جو پازیٹیو نہیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر حکومت کہتی ہے کہ پہلے کواٹر میں شرح نمو صرف 0.
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر اوسطاً دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کون سا پاکستانی غریب ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ آبادی بہت زیادہ ہے اور امیر لوگوں کے اثاثے یعنی ان کی گاڑیوں، پلاٹ یا فیکٹریوں وغیرہ کی قیمتیں تو بڑھ رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی جگہ بحال رکھے ہوئے ہیں جبکہ غریب لوگ جن کے پاس یہ اثاثے نہیں ہیں، وہ مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی اوسط آمدنی کم ہوئی ہے اس لیے کم مہنگائی میں بھی چیزیں غریب کی دسترس سے نکلتی جا رہی ہیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہاکہ ان سب چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سال کچھ چیزیں اچھی اور کچھ بری ہوئی ہیں۔
اس سوال پر کہ حکومت کہہ رہی کہ ہم نے ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا، کیا وہ وزیر خزانہ کی کارکرگی سے مطمئن ہیں، مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات ضرور مان رہے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت اِمسال مائیکرو اکنامک استحکام آیا ہے اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام پر بھی میں حکومت کو ضرور کریڈٹ دیتا ہوں، حالانکہ یہ ایک مشکل کام تھا جو حکومت نے کر دیکھایا، لیکن مجھے یہاں کوئی ایک بھی اقدام ایسا نظر نہیں آ رہا ہے جس میں حکومت نے ریفارمز لائی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں تیل، گندم، کپاس، یوریا، چاول، ایل این جی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، لیکن حکومت پیٹرول پر وہی 60 سے 70 روپے لیوی ٹیکس لے رہی ہے۔ جب بہت سے چیزوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، تو مہنگائی میں بھی کمی آئی ہے اور اسی وجہ سے شرح سود بھی کم ہوئی ہے۔
وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کو ضروری اقدامات نہیں کرنے دیے جا رہےمفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس وقت بہت کم ہے کیونکہ اس وقت 10 کروڑ 50 لاکھ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اب اس کے لیے شہباز شریف حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے، وزیر خزانہ اورنگزیب باتیں تو ٹھیک کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں وہ چیزیں نہیں کرنی دی جارہی ہیں جو اس وقت ضروری ہیں، مثال کے طور پر انہیں نجکاری نہیں کرنے دی جا رہی ہے۔
پاکستان میں سب سے مہنگی بجلیسابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگی بجلی ہے، ہمارے پاس انڈویشیا، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، ساوتھ افریقہ، ویتنام اورکینا سے بھی مہنگی بجلی ہے، ان ممالک کے ساتھ موازنا اس لیے کیا ہے کیونکہ یہ ممالک ہمارے ہم پلہ ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس شرح بہت زیادہ ہےمفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس شرح بہت زیادہ ہے، نوکری پیشہ لوگوں پر 38 فیصد ٹیکس عائد ہے، بزنس والوں پر 40 فیصد جبکہ کمپنیوں پر 61 فیصد ٹیکس عائد ہے۔ 2 سالوں سے ’ایف آئی ایف سی‘ پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ نہیں لا پائی، وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں زمینی حقائق درست نہیں ہیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کو اس بات کا اداک ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس اتنا وقت نہیں، دنیا بڑی تیزی کے ساتھ آگے جا رہی ہے اس لیے یہاں بھی بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی۔
’این ایف سی‘ ایوارڈ کو تبدیل کرنا ہوگاان کا کہنا ہے کہ’این ایف سی‘ ایوارڈ کو تبدیل کرنا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ 50 ہزار روپے تنخواہ والے پر تو ٹیکس لگے، مگر 1000 ایکڑ زرعی زمین رکھنے والے پر ٹیکس نہ لگے، یہ بات بھی قطعاً درست نہیں کہ لاکھ روپے والے تنخواہ دار کا ٹیکس تو ڈبل ہو، مگر دکاندار ٹیکس فری ہو، اربوں روپے کی جائیداد رکھنے والے پر ٹیکس نہ لگے، لیکن کنزیومر پر18 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے۔ جہاں عام آدمی پر ٹیکس لگ رہا ہو وہاں خواص پر بھی ٹیکس لگنا چاہیے۔
حکومت کا ایک سال کیسا رہا؟حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سیاسی میدان میں تو ناکامی اور غیر یقینی صورت حال رہی، ایک سال میں 26ویں آئینی ترمیم ہوئی، نئی آئینی عدالتیں بنیں، حکومت ایک دفعہ پھر ڈوگر صاحب کو چیف جسٹس بنانے جا رہی ہے، پیکا قوانین آ گئے ہیں، جس سے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کی آواز بند کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی سیاسی میدان میں خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آئی اور اس کی وجہ متنازع ترین الیکشن ہیں۔ خلوت میں تو مسلم لیگی رہنما بھی یہی کہتے ہیں کہ اصل میں ہم یہ الیکشن نہیں جیتے، مگر اس ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے جو بھی سیاسی اور قانونی مسائل آتے ہیں، جیسے کہ ٹربیونلز کو رکوانا وغیرہ، بس یہی کچھ ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کیوں ناکام رہی؟سابق وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی بھی اس ایک سال میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عمران خان کو رہا کروا لیں گے اور حکومت بھی گرا دیں گے اور یہ سب کچھ وہ دھرنوں کی سیاست سے کر لیں گے۔ پی ٹی آئی کو اب یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ یہ 2014 نہیں ہے، ادارے آپ کی پشت پناہی نہیں کر رہے، اب آپ کو سیاسی میدانوں میں جدوجہد کرنی ہوگی، اب دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ان لوگوں سے نہیں جیتا جا سکتا، جن کے پاس پی ٹی آئی سے زیادہ طاقت ہے، سو سیاسی کشمکس تو ہے۔
عوام پاکستان پارٹی بننے سے کیا فائدہ ہوا؟مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہم نے مسلم لیگ کو مشکل وقت میں نہیں چھوڑا ، ہم نے مسلم لیگ کو حکومتی دور میں ہی چھوڑا ہے، لیکن اگر ہم اس وقت مسلم لیگ میں ہوتے تو آج مجھے آپ کے سامنے جھوٹ بولنا پڑتا کہ مسلم لیگ نے اصل ووٹ لیے، 26ویں آئینی ترمیم قانون کی بہتری کے لیے لائی گئی، ’پیکا ‘ قانون کی تعریف کر رہے ہوتے، مسلم لیگ چھوڑ کر کم از کم ہم اس جھوٹ سے تو بچ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہم اوریجنل مسلم لیگی ہیں، ہم تو قائد اعظم محمد علی جناح والی باتیں کر رہے ہیں، پاکستانیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں، چونکہ ووٹر اب مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف سے مایوس ہوچکا ہے اور وہ نئی پارٹی ڈھونڈ رہا ہے، تو وہ پارٹی اب ہم ہی ہیں‘۔
نواز شریف خاندان کے پریشر میں فیصلے کر رہے ہیںمفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان بھی اصل جمہوری نہیں ہیں، لیکن اس وقت وہ زیرِ عتاب ہیں، اگر 8 فروری کو نواز شریف کہہ دیتے کہ ہم الیکشن ہار گئے ہیں تو ہم سب ان کی عزت کر رہے ہوتے، مگر آج صورت حال یہ ہے کہ ایک سال سے نوازشریف ٹی وی پر بھی نہیں آئے، کیونکہ سب کو پتا ہے کہ یاسمین راشد نے کتنے ووٹ لیے تھے، نواز شریف نے خاندان کے دباؤ میں آ کر ایسے فیصلے کیے جو کہ ملک اور جمہوریت کے لیے بہتر نہیں تھے۔ اندرا گاندھی نے اپنے بیٹے سنجے گاندھی کے کہنے پہ انڈیا میں ایمرجنسی لگوا دی تھی، اس لیے خاندان کے دباؤ میں آکر سیاست کرنا کوئی سود مند کام نہیں ہے۔
مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم اچھی ہےاس سوال پر کہ وہ مریم نواز کی پنجاب میں کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟، مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم بڑی اچھی بنائی ہے، جو اچھی اچھی تصاویر بناتے ہیں، لیکن اصل بات یہ کہ انہوں نے الیکشن میں اپنی سیٹ تک نہیں جیتی اور یہ جو پراجیکٹس نظر آ رہے ہیں، یہ دراصل میں ایسا نہیں ہوتا، جب 10 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں جن میں صرف پنجاب میں 5 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، تو پھر کہاں کی ترقی؟ صرف لاہور ہی تو پنجاب نہیں، لوگ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں کہ عوام کے لیے کیا کام ہو رہا ہے اور پبلیسٹی کے لیے کیا ہو رہا ہے؟۔
کیا 9 مئی جیسے واقعات پر سیاست دانوں کو سزا ہونی چاہیے؟مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ انہیں پرائیوٹ طور پر ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کو تبدیل کرانا چاہ رہے تھے۔ لیکن یہ بات کھل کر کوئی نہیں کر سکتا، شاید فیض حمید ٹرائل کے بعد کچھ معلومات سامنے آ جائیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ شاید عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بدلنا چاہتے تھے، یہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میں نے یہ لوگوں سے سنا ہے۔ پاکستان میں جیل میں جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ عمران خان نے زمان پارک میں لوگ کھڑے کیے تو اس وقت سے اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان ٹاکرا شروع ہوا لیکن ہمیں اب ان سب چیزوں سے آگے نکلنا ہوگا اور سیاست میں تناؤ کو ختم کرنا ہوگا۔
ایک اور سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میرے خیال سے دونوں سائیڈ سے کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ رہی بات جیل جانے کی تو تقریباً سبھی سیاستدان جیل جاتے ہیں اور ایک سیاستدان کے لیے یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے لیکن ہمیں اس صورت حال سے نکلنا ہوگا، ہم گزشتہ 15 سال سے یہی دیکھ رہے، دنیا کیا کر رہی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ عوام پاکستان پارٹی ان فضولیات کو چھوڑ کر آگے بڑھے گی۔
آرمی چیف مصالحت کروا سکتے ہیں؟اس سوال پر کہ مسلم لیگ ن تو مصالحت کی طرف بڑھتی ہے ، مگر پی ٹی آئی کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں، ایسے میں کیا کوئی بہتری ہو سکتی ہیں؟، مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں عوام کی رائے سے راہنمائی اور فائدہ لیا جاتا ہے، مگر یہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا، شہباز شریف میثاق جموریت کی بات تو کرتے ہیں، مگر وہ الیکشن ہارنے کے باوجود سیٹ پہ بیٹھے ہوئے ہیں، تو ایسے میں کیا بات ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ اپنی منوانے کے ساتھ دوسروں کی بھی ماننی ہوگی اور مصالحت کی طرف جانا ہوگا۔ اسی سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ اس وقت پاکستان کو جو مسئلہ ہے وہ عمران خان اور آرمی چیف ہی سلجھا سکتے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی نہیں سلجھا سکتا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملک کو انتشار سے نکالنا ہوگا اور کچھ نئی چیزیں کرنی ہوں گی، اس کے بعد الیکشن کروا دیں اور عوام جس کو چاہے منتخب کر دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ کا کہنا ہے کہ کر رہے ہیں حکومت نے ہوئی ہیں ایک سال کے ساتھ کے لیے ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا WhatsAppFacebookTwitter 0 9 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس)
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا چکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔
قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے۔ 37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کی ہیں۔ ہر ٹرانسفارمیشن کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے۔ رواں مالی سال امپورٹس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی امپورٹ 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔جون کے آخر تک 37 یا 38 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہوں گی۔ 2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا ہے۔ قرضوں کی شرح68فیصد سے کم ہوکر65 فیصد پر آ چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچینی وزارت دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ نیا مالی سال؛ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ، قرض ادائیگی پر 6200 ارب خرچ ہوں گے بھارت کے انتہاپسند ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، صدر مملکت پنجاب میں نان رجسٹرڈ ریسٹورنٹ اور شادی ہالوں کی رجسٹریشن کا فیصلہ اسرائیلی فوج کا غزہ تک امداد لے جانے والی کشتی پر ڈرونز سے حملہ، میڈلین کو قبضے میں لے لیا قومی اقتصادی سروے آج پیش کیا جائے گا، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل میں ناکام وفاقی حکومت کئی معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام،قومی اقتصادی سروے کل جاری کیا جائے گاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم