عالمی برادری متحد ہو کر ٹرمپ کا راستہ روکے!
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں غزہ پر امریکی قبضہ کے جس شرمناک منصوبے کا اعلان کیا تھا، اپنے سالانہ ناشتے کی تقریب سے خطاب کے دوران اسے ایک بار پھر دہرایا ہے اور کہا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کی پٹی اسرائیل کے ذریعے امریکا کے حوالے کر دی جائے گی امریکا احتیاط سے غزہ کی تعمیر شروع کرے گا اور دنیا کے بہترین ترقیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ تعمیر نو کے بعد غزہ اپنی نوعیت کی سب سے عظیم اور سب سے شاندار پیش رفت میں سے ایک ہو گی، اس کام کے لیے امریکا کو کسی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ امریکی صدر کے اس منصوبے پر اسرائیل کس طرح بغلیں بجا رہا ہے اور اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل کے مستقبل کے عزائم کیا ہیں اس کا اندازہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے فوج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے دیے گئے بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فوج غزہ کے رہائشیوں کو رضا کارانہ طور پر علاقہ چھوڑنے کی منصوبہ بندی کے لیے تیار ہے، میں صدر ٹرمپ کے دلیرانہ منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، غزہ کے رہائشیوں کو آزادی سے ہجرت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں قوانین ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع سے سوال کیا گیا کہ فلسطینیوں کو کون لے گا؟ اس سوال پر ان کا جواب تھا کہ وہ ممالک جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی جیسے اسپین، آئر لینڈ، ناروے اور دیگر ممالک جنہوں نے اسرائیل پر فوجی آپریشن سے متعلق جھوٹے الزمات عائد کیے۔ اب انہیں قانونی طور پر غزہ کے رہائشیوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دینی چاہیے، ہم غزہ کے شہریوں کو بھیجنے کے لیے زمینی راستے سمیت جہاز اور سمندری راستے سے خصوصی انتظامات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امریکا کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی بار غزہ پر امریکی قبضے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے مگر اب اپنے سالانہ ناشتہ کے موقع پر ان کی طرف سے اس پر اصرار اور اس پر عملی پیش رفت کے لیے ممکنہ اقدامات کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد میں کس قدر سنجیدہ ہیں اور جلدی میں ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر اسرائیلی وزیر دفاع نے منصوبے کی جن تفصیلات سے پردہ اٹھایا اور یہ تک بتا دیا ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کو غزہ سے دیس نکالا دے کر کیسے کیسے اور کہاں کہاں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اس کے بعد عالمی برادری پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ محض زبانی اس ظالمانہ منصوبے کی مخالفت تک محدود نہ رہے بلکہ عملاً اس کو روکنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جانا لازم ہے کیونکہ موجودہ امریکی صدر سے کچھ بعید نہیں، امریکا کے سابق صدور، جن کی شخصیت میں اس طرح کی نامعقولیت کی شہرت نہیں تھی، ان کے ادوار میں بھی امریکا نے ہمیشہ طاقت کے نشہ میں دھت ہو کر جارحانہ اور ظالمانہ اقدامات سے گریز نہیں کیا۔ ماضی قریب میں نائن الیون کا جواز بنا کر امریکا کی افغانستان پر چڑھائی اور زہریلی گیسوں کی تیاری کا الزام عائد کر کے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسے کام امریکی جارحانہ ذہنیت کی نادر مثالیں ہیں تاہم افغانستان اور عراق پر ان حملوں کے لیے اس وقت کی امریکی قیادت نے جھوٹے سچے بہانے تراش کر دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے ممالک نے ان حملوں میں امریکا کا ساتھ دیا تھا مگر صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کے منصوبے کو تاحال اسرائیل کے علاوہ کسی ایک بھی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی حالانکہ صدر ٹرمپ نے اپنی ابتدائی پریس کانفرنس کے دوران اپنے منصوبے پر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کو اعتماد میں لینے اور ان کا تعاون حاصل ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اب تک مسلم دنیا اور باقی عالمی برادری کا جو رد عمل سامنے آیا ہے، سب نے غزہ پر امریکی قبضے کی تجویز کو مضحکہ خیز، ناقابل عمل اور ناقابل قبول ہی قرار دیا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم دنیا میں یورپ اور ہر طرح کے حالات میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے والے برطانیہ جیسے ملک سمیت پوری عالمی برادری نے اس منصوبے کو غیر معقول قرار دے دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا اپنی طاقت کے بل پر دھونس اور دھمکی یا لالچ وغیرہ کے حربوں کے ذریعے کل کچھ ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو جائے تاہم فی الوقت تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی واضح الفاظ میں غزہ سے فلسطینی باشندوں کے انخلا اور امریکا کے وہاں پر جبری تسلط کے ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن غزہ سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، امریکی صدر کا نام لیے بغیر انتونیو گوتریس نے کہا کہ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں، ہم فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، غزہ کے مسئلے کا پر امن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے نام پر ہمیں اسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی قانون کی بنیادوں پر عمل پیرا رہیں اور نسلی صفائی کی کسی بھی صورت سے بچیں۔عالمی برادری کے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضہ کے منصوبے کے استرداد اور اس کی مخالفت میں یک آواز ہونا فلسطینی عوام اور امت مسلمہ کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ امریکا کو اپنے اس غاصبانہ اور جابرانہ منصوبے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے دھونس، دھمکی اور لالچ وغیرہ کے اقدامات کا موقع دیے بغیر امت مسلمہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس پیغام پر فوری توجہ دے کہ:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
مسلم ممالک ٹرمپ کے منصوبے کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں فوری طور پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس بلائے جائیں اور ماضی کے’’نشستند گفتند، برخاستند‘‘ کے تجربات کو دہرانے کے بجائے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے جس کے ذریعے فلسطینی بھائیوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ مسلم ممالک کے مشترکہ موقف اور متحدہ اقدام کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کو بھی منظم کرنے کا اہتمام کیا جائے اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل کونسل اور سلامتی کونسل کے ارکان سے موثر رابطوں کے بعد ان کے اجلاس بلائے جائیں اور رائے عامہ کی باقاعدہ تشکیل کے ذریعے روس، چین، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ اور دیگر انصاف پسند ممالک کو ٹرمپ کے اس منصوبے کی مزاحمت کے لیے کھڑا کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر غزہ پر امریکی عالمی برادری امریکی صدر اسرائیل کے کے منصوبے کی مخالفت منصوبے کی امریکا کے کے ذریعے ٹرمپ کے اور اس غزہ کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔
ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا جس نے عوام پر بہت سے پابندیاں نافذ کی ہیں۔(جاری ہے)
Tweet URLطالبان حکام کی جانب سے لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نے ایک پوری نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس سے ملک کو طویل المدتی طور پر بہت بھاری نقصان ہو سکتا ہے جبکہ ان پابندیوں سے افغان معاشرے میں شدید بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔
'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
مثبت اشاریےانہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی جس میں مسلح تنازع اور وسیع پیمانے پر تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سلامتی کی صورتحال قدرے مستحکم ہو گئی ہے۔
2023 کے اوائل میں پوست کی کاشت پر عائد کی جانے والی پابندی بڑی حد تک برقرار ہے جس کے فوائد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کو بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
عام معافی کے حکم پر مجموعی عملدرآمد حوصلہ افزا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) اور عبوری حکام کے درمیان تعمیری روابط بھی موجود ہیں جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹیموں کو ملک کی تمام 34 جیلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔
بحرانوں کا طوفاناوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عملدرآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔
ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔
مسائل کے حل کی امیدرواں ماہ کے اختتام پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والی روزا اوتنبائیوا نے کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین ملازمین کی رسائی کو روکنے جیسے اقدامات سے اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سلامتی کونسل طالبان حکام سے خواتین کے روزگار پر پابندی کے خاتمے کی اپیل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا جامع نقطۂ نظر واحد کثیرالجہتی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو عالمی برادری اور عبوری حکام کے درمیان رابطے کا ذریعہ اور ایک ایسا سیاسی راستہ ہے جس کے ذریعے ان پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو افغانستان کی عالمی نظام میں دوبارہ شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔