سپریم کورٹ، آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6ریگولر بینچز تشکیل WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6 ریگولر بینچز تشکیل دے دیئے گئے۔
بینچ نمبر ایک چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس شاہد وحید اور بینچ نمبر دو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے۔بینچ نمبر 3 جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک جبکہ بینچ نمبر 4 جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس ملک شہزاد پر مشتمل ہو گا۔
بینچ نمبر 5 جسٹس شاہد وحید، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال اور بینچ نمبر 6 جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل ہو گا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ 4 روز فوجی عدالتوں سے متعلق سماعت کرے گا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔  جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ’آئین کی حالت اور پاکستان میں قانون کا نفاذ‘ کے عنوان سے خط،
  • مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے جدید طریقہ کار اپنایا جائے: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے تاریخ مقرر
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ