اس دفعہ ہم آپکی گولیوں کی تیاری کیساتھ آئینگے،جنید اکبر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
صوابی (مانیٹرنگ ڈیسک) جنید اکبر کا کہنا ہے کہ تم پاکستان کے چاچے مامے نا بنو یہ ملک ہمارا ہے تم ایک سرکاری نوکر ہو، اس حکومت کو اور ان کے ہینڈلرز کو پیغام دینا چاہتا ہوں، ہمیں اپنی ریاست سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اپنے لوگوں پر گولیاں چلائیں گے، لیکن اس دفعہ
ہم انشاء اللہ آپ کی گولیوں کی تیاری کیساتھ آئیں گے۔ تفصیلات کے مطابق 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر تحریک انصاف کی جانب سے اعلان کردہ یوم سیاہ کے سلسلے میں صوابی میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔جلسے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف خیبرپختوںخواکے صدر جنید اکبر نے کہا کہ محسن نقوی کو شرم آنی چاہیے جو کہتا ہے کہ دوبارہ وہی کریں گے، ایک دفعہ عمران خان حکم دے دے ہم تمھارا چال ڈھال ٹھیک کردیں گے۔تم پاکستان کے چاچے مامے نا بنو یہ ملک ہمارا ہے تم ایک سرکاری نوکر ہو، میں ان اداروں کو اوون کرتا ہوں تم نے تو چلے جانا ہے۔میں اس حکومت کو اور ان کے ہینڈلرز کو پیغام دینا چاہتا ہوں، ہمیں اپنی ریاست سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اپنے لوگوں پر گولیاں چلائیں گے، لیکن اس دفعہ ہم انشا اللہ آپ کی گولیوں کی تیاری کیساتھ آئیں گے۔ میں اداروں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ اداروں کے ساتھ ٹکراؤ ہو کیونکہ ہم اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ادارے تب مضبوط ہوتے ہیں جب ان کے ساتھ عوام ہو اور اداروں اور عوام کے درمیان خلیج بہت بڑھ چکا ہے۔ہم اداروں کو ٹیکس سرحدوں کے تحفظ کیلیے دیتے ہیں لیکن سرحدوں کا تحفظ تو ان سے ہو نہیں سکتا، وہ ان پیسوں سے پارٹیاں بناتے اور گراتے ہیں، ہمارے بیڈ رومز اور واش رومز میں کیمرے لگاتے ہیں۔جنید اکبر نے کہا کہ تم تو ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، صنم جاوید، طیبہ راجس کو نہ توڑ سکے تو عمران خان کے کارکنان کو کیسے توڑ سکو گے۔ بہت جلد عمران خان ایک دفعہ پھر کال دیں گے آپ نے تیار رہنا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنید اکبر اداروں کو
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔