پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن WhatsAppFacebookTwitter 0 9 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: حکومت نے پناہ گزینوں سے متعلق ٹرمپ پالیسی کے بعد پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کا مسودہ تیار کر لیا، جبکہ ہفتہ کے روز راولپنڈی سے 205 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق راولپنڈی کی انتظامیہ اور پولیس نے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم 205 افغانوں کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع راولپنڈی کی پولیس کی جانب سے 5 روز قبل حراست میں لیے گئے ایک افغان نوجوان نے رہائی نہ ملنے اور ملک بدر کیے جانے پر اپنے سر پر لوہے کی سلاخوں سے وار کرکے خود کو زخمی کر لیا۔ حکام نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے افغان شہری کو آگاہ کیا کہ اسے 10 فروری کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے مزید کارروائی عمل میں لاتے ہوئے گرفتار 155 افغان خاندانوں اور نوجوانوں کو رہا کر دیا ہے کیونکہ ان کے پاس ویزا سفری دستاویزات تھیں۔ گرفتار افغانوں کی تفتیش کے لیے حج کمپلیکس میں ایک خصوصی سہولت مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔
ادھر میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے افغان باشندوں کے ویزے ختم کیے جانے اور امریکا میں آباد کاری کے وعدے سے پیچھے ہٹنے پر پاکستان نے اپنے ملک میں مقیم افغانوں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے امریکا کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے 3 مرحلوں پر مشتمل منصوبے کا مسودہ تیار کیا ہے جس میں غیر ملکی مشنز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے افغان شہریوں کی منتقلی میں تعاون کریں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے منصوبے کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ اگر افغانوں کو مقررہ تاریخ تک ان کے ملک سے نہیں نکالا گیا تو انہیں ’افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا‘۔
واضح رہے کہ 2021 میں جب افغانستان طالبان کے قبضے میں چلا گیا تو لاکھوں پناہ گزین سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک پاکستان چلے آئے تھے۔
امریکایا نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری خاص طور پر طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔ان افغانوں سے امریکا میں آبادکاری کا وعدہ کیا گیا تھا، بہت سے لوگوں نے امریکی ویزے کے انتظار میں پاکستان کا سفر کیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اب ان افغان باشندوں کو خدشہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام (یو ایس آر اے پی) کو معطل کرنے کے حکم کے بعد انہیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا، جس سے دنیا بھر میں امریکا میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کو مؤثر طریقے سے پابند کر دیا جائے گا ۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط ہونے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر نے ’تیسرے ملک میں آباد ہونے والے افغان شہریوں‘کے لیے 3 مراحل پر مشتمل واپسی کے منصوبے کا مسودہ تیار کیا ہے۔
امریکی ٹیلی ویژن سی این این کے مطابق پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز میں غیر ملکی مشنز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 تک اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی سے افغان شہریوں کی منتقلی میں تعاون کریں۔ اگر انہیں اس تاریخ تک نہیں نکالا گیا تو انہیں’افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا‘۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن لوگوں کو واپس لوٹنے پر مجبور کیا گیا ہے، انہیں طالبان کی جانب سے انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں خاص طور پر نسلی اور مذہبی اقلیتیں، خواتین اور لڑکیاں، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور شوبز پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
افغان تنظیم ایوک کے بانی شان وان ڈیور کا کہنا ہے کہ 10 سے 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں ویزے یا آبادکاری کے منتظر ہیں۔
امریکی ٹیلی ویژن سی این این کے مطابق توقع ہے کہ پاکستان میں امن و امان قائم کرنے والے ادارے افغانوں کی منتقلی کے منصوبے کی نگرانی اور عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس کے ساتھ تعاون کریں گی۔
سی این این کے مطابق پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’افغانوں سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے تحت ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔
بیان میں افغان شہریوں کی آبادکاری کے لیے اسپانسر کرنے والے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس عمل کو جلد مکمل کریں بصورت دیگر اسپانسرڈ افغانوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغانوں کو بھی ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، جو تقریباً ایک دہائی قبل پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
امریکی ٹیلی ویژن کے مطابق امریکی سفارت خانے اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین بشمول رجسٹرڈ پناہ گزین اور 8 لاکھ سے زیادہ غیر قانونی افراد پاکستان میں مقیم ہیں۔
بہت سے لوگ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد فرار ہو گئے تھے۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ایک نئی کھیپ پاکستان چلی آئی تھی۔ 2021 میں امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد تقریباً 600،000 پناہ گزینوں کی ایک اور کھیپ نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ملک بدر
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔