آپ جو سوچ سکتے ہیں وہ کر بھی سکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
یہ ممکن ہے کہ چیزیں عین اسی طرح واقع ہوں جیسے آپ چاہتے ہیں۔ چیزوں کی وقوع پذیری اگرچہ انسانی ارادے کی مکمل طور پر محتاج نہیں ہے۔ لیکن ایک تو انسان احسن تقویم ہے اور دوسرا وہ کائنات کی تمام چیزوں کو اپنے مصرف میں لانے پر قادر ہے۔ لہٰذا وہ چیزوں کو جیسے چاہے ایک خاص حد تک بتدریج وقوع پذیر کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی زبان میں انسان نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بات نہیں بھولنی چایئے کہ بطور ’’بنی نوع انسان‘‘ اور ’’ابن آدم‘‘ ہمارے دماغ میں صرف وہی کچھ آتا ہے جس کے واقع ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں کیونکہ بطور خلیفتہ الارض ہمارے دماغ اور تخیل کی ساخت اور ماہیت کی تخلیق ہی کچھ ایسی کی گئی ہے کہ ہمارے دماغ میں چیزیں وقوع پذیر ہونے ہی کے لئے آتی ہیں۔
اس بات کو سلیس اور سادہ زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کے واقع ہونے کا فطری امکان نہیں ہوتا ہے وہ ہمارے دماغ میں ہی نہیں آتی ہیں۔انسان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ’’افضل المخلوقات‘‘ ہے کہ جس وجہ سے قرآن مقدس نے اسے ’’خلیفتہ الارض‘‘ قرار دیا ہے۔ انسان کی تخلیق کو دو مرحلوں میں اٹھایا گیا ہے کہ اول اس کی روح پیدا کیے جانے کے بعد ’’عالم ارواح‘‘ میں رہی ہے اور کائنات بعد میں بنی ہے جس کو اس نے بنتے اور تخلیق ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ چیزوں کے بننے اور ان کے طبیعاتی (و سائنسی) طریقہ کار کو پہلے سے جانتا ہے اور دوم انسان کے جسم کو روئے زمین کی مٹی سے بنایا گیا ہے جس وجہ سے وہ ’’زمینی حقائق‘‘ اور اپنے گردونواح کے ’’ساختی علوم‘‘ سے پیدائشی طور پر آگاہ ہے اور وہ غوروخوض سے ان پر عبور حاصل کر سکتا ہے کہ دنیا کے ہم سارے انسانوں اور کائنات کا آغاز ایک ہی نکتہ و ابجد سے ہوا ہے۔
اس لحاظ سے کائنات اور عالم موجودات کے تمام تر علوم یعنی چیزوں کی ساخت اور کارکردگی کا سارا احوال ہماری ’’گھٹی‘‘ میں ہے۔ کائنات اور زمین و آسمان کی ہر چیز اور روئے زمین کی زندگی کے تمام حالات و واقعات سے بطور بنی نوع انسان اور ابن آدم ہم پہلے سے ہی گزر چکے ہیں اور ان سے واقف و آشنا ہیں۔ یہاں اس بات پر غور کریں کہ ’’علم کل‘‘ پہلے سے ہی ہمارے ’’تحت الشعور‘‘ میں موجود ہے یعنی اب چیزوں کو اپنے شعور میں لانا، واقع ہونے دینا، کرنا یا انہیں مفید انداز میں اپنے مصرف میں لانا ہماری عقل و شعور، ادراک اور عمل پر منحصر ہے ۔ مایوسی کو اسی لئے اسلام میں گناہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ انسان کو بے عمل بناتی ہے، حقیقی زندگی سے دور لے جاتی ہے اور بعض صورتوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔
علامہ محمد اقبال نے ارشاد فرمایا تھا کہ، ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی، یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔‘‘ زندگی اور کائنات پر غوروفکر کریں آپ پر زندگی کی ہر حقیقت اور کائنات کا ہر راز وا ہو سکتا ہے۔ زندگی کو جنت اور دوزخ بنانا انسان کے اعمال سے منسلک ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں مثبت اور منفی سوچ اور اعمال ہی کا فرق ہے۔ اسی لئے ایک حدیث شریف میں ایک لمحے کی فکر کو دو جہانوں کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ آپ تعمیری طور پر سوچیں گے تو آپ پر بتدریج تمام اسرار و رموز کھلتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ آپ کے دماغ میں جو بھی خیال آئے اسے آپ مجسم کر سکتے یعنی ’’آپ جو سوچ سکتے ہیں وہ کر بھی سکتے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام ترین اسرار و رموز فطری طور پر آپ کے اندر رکھ دیئے گئے ہیں، اب ان کو کھوجنا اور ان کو عمل میں لانا آپ کا کام ہے۔
اس کے باوجود ہم اپنے آپ کے علاوہ غیر مانوس عناصر کی موجودگی کو بھی اپنے آس پاس محسوس کر سکتے ہیں۔اگر زندگی میں آپ کچھ بڑی کامیابیاں سمیٹنا چاہتے ہیں تو سوچنے کا فن سیکھیں۔ دنیا کا کوئی بھی کام اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب پہلے آپ اپنی سوچ اور خیالات سے اس کے ہر پہلو کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ غوروفکر زندگی میں ہر کامیابی کی بنیاد ہے کیونکہ پہلے چیزیں ہمارے دماغ میں واقع ہوتی ہیں، اشکال بتاتی ہیں اور اس کے بعد وہ مادی اور حقیقی دنیا میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور کائنات سکتے ہیں سکتا ہے ہے اور گیا ہے
پڑھیں:
ذیابیطس کے شکار بچوں کی زندگی 4 گنا کیسے بڑھ سکتی ہے؟
پاکستان میں ٹائپ ون ذیابیطس (T1D) میں مبتلا بچوں کی اوسط متوقع عمر صرف 11 سال ہے، لیکن اگر بروقت تشخیص، مستقل انسولین اور مناسب نگہداشت فراہم کی جائے تو یہ عمر 41 سال تک بڑھ سکتی ہے۔
ملکی و عالمی ماہرین کے اس تخمینے کو مد نظر رکھتے ہوئے 2 پاکستانی اداروں نے ایک نئی شراکت داری کا اعلان کیا ہے جو ملک بھر کے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں بچانے کی امید بن گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزن کم کرنے کی نئی دوا ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کے لیے امید کی کرن
ماہرین امراض ذیابطیس کے مطابق یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار T1D انڈیکس کی جانب سے سامنے آئے ہیں، جو جے ڈی آر ایف اور انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن سمیت عالمی اداروں کا تیار کردہ ڈیٹا پلیٹ فارم ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران پاکستان میں 18 ہزار 100 سے زائد بچے اور نوجوان ٹائپ ون ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں اکثریت کی موت انسولین کی عدم دستیابی یا بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے دوا ساز کمپنی گیٹس فارما اور غیر سرکاری تنظیم میٹھی زندگی نے ایک اہم معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت 250 بچوں کو تاحیات مفت انسولین فراہم کی جائے گی، اس اقدام سے ’میٹھی زندگی‘ کے پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 1,550 ہو جائے گی، جو ملک کے 130 سے زائد شہروں تک پھیلا ہوا ہے، جن میں تھرپارکر اور ڈیرہ بگٹی جیسے دور دراز علاقے بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 4 کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار، مگر لاعلم
اسلام اباد کے مقامی ہوٹل میں معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میٹھی زندگی کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ثنا اجمل جو خود بھی ٹائپ ون ذیابیطس کی مریضہ ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ صرف 250 بچوں کی بات نہیں، یہ ایک قومی ایمرجنسی سے نمٹنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ مفت انسولین کے ساتھ ساتھ نفسیاتی معاونت، طبی رہنمائی اور ہم عمر افراد سے جڑنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسولین کوئی عیاشی نہیں، بلکہ زندگی کی ضمانت ہے۔ اسے ہر بچے کی دہلیز پر پہنچنا چاہیے۔
معاہدے کے تحت گیٹس فارما ہر 3 ماہ بعد انسولین فراہم کرے گی، جبکہ میٹھی زندگی مستحق بچوں کی نشاندہی، ادویات کی محفوظ ترسیل اور کارکردگی کی رپورٹنگ کی ذمہ دار ہوگی۔
ڈاکٹر وجیہہ جاوید، ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ گیٹس فارما نے اس موقع پر کہا یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ بچے محض انسولین نہ ملنے کے باعث مر رہے ہیں۔ ہم صرف دوا فراہم نہیں کر رہے، بلکہ ایک مربوط نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خاموش قاتل: ذیابیطس کی تشخیص میں تاخیر خطرناک، ماہرین کا انتباہ
ٹی آئی ڈی انڈیکس کے مطابق پاکستان ہر سال ایک لاکھ 10 ہزار صحت مند سالوں سے محروم ہورہا ہے، جو کہ ان بچوں کی قبل از وقت اموات اور معذوری کے نتیجے میں ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بروقت دیکھ بھال اور مناسب سہولیات فراہم کی جائیں تو اس نقصان کو مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے۔
تقریب کے اختتام پر بچوں کی کہانیوں اور مصوری کی سرگرمیوں کے دوران والدین نے امید اور احتیاط کے جذبات کا اظہار کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسولین پاکستان ذیابیطس ٹائپ 1 میٹھی زندگی