Daily Mumtaz:
2025-07-26@00:43:01 GMT

سہ ملکی سیریز؛ جنوبی افریقا کی تیسری وکٹ 132 رنز پر گر گئی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

سہ ملکی سیریز؛ جنوبی افریقا کی تیسری وکٹ 132 رنز پر گر گئی

سہ ملکی سیریز کے دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف جنوبی افریقا کی 3132 رنز پر تیسری وکٹ گر گئی۔

پروٹیز کپتان ٹیمبا باوما 23 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 20 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔

ٹیم میں ڈیبیو کرنے والے میتھیو بریٹزکے اور جیسن اسمتھ کے درمیان دوسری وکٹ کے شراکت میں 93 رنز بنائے گئے۔ جیسن اسمتھ 41 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔

یتھیو بریٹزکے ڈیبیو میں نصف سنچری بنانے والی جنوبی افریقا کے دوسرے اوپنر بلے باز بن گئے۔

دو کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد کائل ویرین محض 4 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک رن بنا کر وکٹ گنوا بیٹھے۔

ٹاس

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہے میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا۔ کیوی ٹیم میں رچن رویندرا کی جگہ ڈیون کانوے کو شامل کیا گیا جبکہ جنوبی افریقا کی جانب سے 4 کھلاڑیوں کو ون ڈے انٹرنیشنل کیپ دی گئی۔

نیوزی لینڈ کے رچن رویندرا پاکستان کے خلاف پہلے ون ڈے میں ماتھے پر گیند لگنے سے زخمی ہوگئے تھے جس کے باعث انہیں دوسرے میچ کے لیے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔

جنوبی افریقی کپتان ٹیمبا باوما کا کہنا تھا کہ ٹاس جیت جاتے تو بولنگ کو ہی ترجیح دیتے، ٹیم میں زیادہ تر نئے کھلاڑی شامل کیے گئے جو اچھے کھیل کے لیے بے تاب ہیں۔

کیوی کپتان مچل سینٹنر کا کہنا تھا کہ جلد وکٹیں لینے کی کوشش ہوگی، پچ 300 رنز سے زائد والی دکھائی دیتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں 2008 کے بعد پہلا ڈے ون ڈے انٹرنیشل کھیلا جا رہا ہے۔

نیوزی لینڈ پلینگ الیون:

ول ینگ، ڈیون کانوے، کین ولیم سن، ڈیرل مچل، ٹام لیتھم، گلین فلپس، مائیکل بریسویل، مچل سینٹنر (کپتان)، میٹ ہنری، بین سیئرز اور ول اورورکی۔

جنوبی افریقا پلینگ الیون:

ٹیمبا باوما (کپتان)، میتھیو بریٹزکے، جیسن اسمتھ، کائل ویرین، ویان مولڈر، مہلالی پونگوانا، سینوران موتھو سیمی، ایتھن بوش، جونیئر ڈالا، لونگی نگیڈی اور تبریز شمسی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جنوبی افریقا نیوزی لینڈ ٹیم میں

پڑھیں:

جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں جیلیں صرف قید و بند کی جگہیں نہیں رہیں، یہ تاریخ کے وہ خاموش گوشے بھی ہیں جہاں کئی نسلوں کے سیاسی خواب، جدوجہد، اذیتیں اور اصولی اقدار کاغذ پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ جیل کے سناٹے میں لکھی گئی یہ تحریریں نہ صرف فرد کی مزاحمت کا بیانیہ ہیں، بلکہ پورے عہد کا عکاس بھی۔

برصغیر میں زندان ادب یا زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی روایت نے آزادی کی تحریک کے دوران جڑ پکڑی، جب برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ نہرو، گاندھی، بھگت سنگھ اور خان عبدالغفار خان جیسے رہنماؤں نے جیل کو ایک فکری خلا کے بجائے تخلیق کا میدان بنایا۔ لاہور جیل میں بھگت سنگھ کی مشہور تحریر ’وائے آئی ایم این ایتھیئسٹ‘ ہو یا خان عبدالغفار خان کی خود نوشت 'مائی لائف مائی اسٹرگل‘ یہ تحریریں آج بھی وقت سے ماورا سچ بولتی ہیں۔

(جاری ہے)

کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی

پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب

آزادی کے بعد سیاسی جبر کی شدت کم ہوئی، اور یوں جیل ادب بھی طویل وقفے میں داخل ہو گیا۔ مگر پھر 1975ء میں بھارت میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی نے اسے دوبارہ جنم دیا۔ صحافی کلدیپ نئیر نے اپنی اسیری کی کہانی ’اِن جیل ایمرجنسی ری ٹولڈ‘ میں لکھی، جبکہ جے پرکاش نارائن اور لال کرشن اڈوانی جیسے سیاستدانوں نے بھی جیل کو اپنے فکری سفر کا سنگ میل بنایا۔

پاکستان میں چونکہ آمریت اور مارشل لا کے ادوار آتے جاتے رہے، اس لیے وہاں زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کا سفر جاری رہا۔

پاکستانی فوجی سربراہ ایوب خان کے 1958ء سے 1969ء تک جاری رہنے والے مارشل لا کے دوران فیض احمد فیض نے ’زندان نامہ‘ اور ’دست صبا‘ جیسی شاہکار شاعری تخلیق کی۔

اسی طرح جنرل ضیا الحق کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جیل ڈائریاں اور کتابیں منظر عام پر آئیں، جو انہوں نے موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھیں۔

اکیسویں صدی میں بھارت میں جب ایک بار پھر صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں پر ریاستی شکنجہ کسنے لگا، جیل ادب نے ایک نئی کروٹ لی۔ ممبئی کے استاد عبدالوحید شیخ نے، جو 2006ء کے ٹرین دھماکوں کے جھوٹے الزام میں نو برس تک قید و بند میں رہے نہ صرف اپنی روداد لکھی، بلکہ انہوں نے دیگر جیل ڈائریوں اور جیل ادب کو یکجا کر کے ان پر ڈاکٹریٹ کےلیے مقالہ بھی لکھا۔

حال ہی میں ان کو ایک یونیورسٹی نے انہیں اس کاوش کے لیے ڈاکٹریٹ سے نوازا۔

عبدالوحید شیخ کے مطابق، ’’جیل کے اندر نعت، حمد، نظم، غزل، ڈائری اور خودنوشت تک ہر صنف کو برتا گیا ہے۔ یہ ادب یا تو دل سے نکلا ہوا جذباتی اظہار ہے یا مزاحمت کی پرزور صدا۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے قیدیوں کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جن پر ریاست نے ملک مخالف قوانین تھوپے۔

‘‘

سینئر صحافی افتخار گیلانی نے، جو 2002ء میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نو ماہ قید میں رہے، 1975ء کے بعد بھارت میں قید و بند کے حوالے سے پہلی یاداشت لکھی۔ ان کی انگریزی کتاب 'مائی ڈیز اِن پریزن‘ 2005ء میں جبکہ اس کا اردو ورژن ’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ 2006ء میں منظر عام پر آئی۔

قید خانے میں تخلیق پانے والے ادب کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایمرجنسی کے بعد تین دہائیوں تک جیل ادب جیسے خاموش ہو گیا تھا، مگر اب جب پھر سے اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، یہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔

‘‘

اسی سلسلے میں سدھا بھردواج، جی این سائبابا اور ڈاکٹر بنائک سین، کوبڈ گاندھی جیسے سماجی کارکنوں نے بھی اپنی قید کی کہانیاں قلمبند کی ہیں، جو صرف ذاتی اذیت کی داستانیں نہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ جاری کشمکش کا آئینہ بھی ہیں۔

جنوبی ایشیا کا زندان ادب دراصل ان آوازوں کا مجموعہ ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی گئی، مگر مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق:

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

جیلوں اور قید خانوں کی دیواریں ان آوازوں کو قید رکھنے میں ناکام رہیں۔ یہ صرف قیدیوں کا ادب نہیں، یہ گواہی ہے اس سچ کی جسے طاقت نے بارہا قید کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار قلم نے آزاد کیا۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی افریقا کے نوجوان بیٹر نے انڈر 19 ون ڈے کرکٹ میں نئی تاریخ رقم کر دی
  • ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز: پاکستان نے جنوبی افریقا کو 31 رنز سے شکست دے دی
  • جنوبی افریقا میں ہاتھی نے کروڑ پتی مالک کو حملہ کرکے مار دیا
  • دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے قومی ٹیم کا اعلان، رضوان کپتان، بابر اور شاہین کی بھی واپسی
  • پاکستان، افغانستان اور یو اے ای کے درمیان سہ ملکی سیریز پر اہم پیشرفت
  • لاہور: سرکاری اسکول میں پڑھنے والے سبزی فروش کے بیٹے کی میٹرک بورڈ میں تیسری پوزیشن
  • میٹرک: لاہور 1193 نمبرز کے ساتھ حرم فاطمہ، گوجرانوالہ سے 3 امیدواروں کا مشترکہ ٹاپ 
  • جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
  • لیونل میسی 2026 کے فیفا ورلڈ کپ میں بطور کپتان شرکت کریں گے، ارجنٹینا فٹبال ایسوسی ایشن کی تصدیق
  • فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا