این ایل سی اور ایف ڈبلیو او بتائیں کہ کام کرنا ہے یا نہیں؟ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
چیئر مین قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ---فائل فوٹو
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین راجہ خرم نواز کہا ہے کہ این ایل سی اور ایف ڈبلیو او بتائیں کہ کام کرنا ہے یا نہیں؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز کی زیرِ صدارت ہوا، جس میں اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق سی ڈی اے حکام نے بریفنگ دی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سہالہ پل کا منصوبہ 2019 ء سے جاری ہے، اگر یہ منصوبہ ایف ڈبلیو او کے پاس ہے تو انہیں کہیں کہ یہ مکمل کریں۔
ڈی جی سی ڈی اے نے جواب دیا کہ ایف ڈبلیو او فنڈز کی بروقت فراہمی یقینی چاہتا ہے۔
پی پی پی کے رکنِ قومی اسمبلی آغا رفیع اللّٰہ نے کہا کہ ایف ڈبلیو او جیسے ادارے منصوبہ لے کر دیر کر دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی کو انشور کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے اس منصوبے کے لیے 400 ملین کے فنڈز دیے تھے، یہ لوگ کام نہیں کر سکے تو ہم نے یہ فنڈز واپس لے لیے تھے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے سوال کیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ سی ڈی اے سے پوچھیں۔
ڈی جی سی ڈی اے نے اجلاس میں بتایا ہے کہ ہمیں فنڈز دیے گئے تھے لیکن پہلے رقبے سے متعلق کلیئرٹی نہیں تھی۔
چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز نے کہا کہ ڈر نے کی کوئی بات نہیں، اگر ایف ڈبلیو او کام نہیں کر رہا تو اسے فارغ کریں، 6 سال ہو گئے ہیں آپ اسے مکمل نہیں کر سکے، ویسے تو چیئرمین سی ڈی اے نے پورے جہاں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، چیئرمین سی ڈی اے داخلہ کے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں، وہ اگلی میٹنگ میں ہمیں اس سے متعلق واضح جواب دیں۔
اجلاس میں پارلیمنٹ لاجز کام مکمل نہ ہونے اور وہاں چوہے دوڑنے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا، چیئرمین کمیٹی نے سی ڈی اے حکام سے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز سے متعلق ہمیں بریفنگ دی جائے۔
تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی جمشید دستی نے بتایا کہ میرے لاجز میں چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔
جس کے جواب میں سی ڈی حکام نے بتایا کہ ہم فنڈز کے منتظر ہیں، فنڈز ملتے ہیں تو ہم ری ٹینڈر کی طرف جائیں گے۔
چئیرمین کمیٹی نے ہدایت کہ کہ ایک ہفتے بعد میٹنگ میں سی ڈی اے ممبر پلاننگ سمیت متعلقہ حکام یقینی آئیں اور ہمیں بتائیں تو سی ڈی اے والے کیا کام کر رہے ہیں۔
جس پر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ سی ڈی اے کے کنٹریکٹر کے ساتھ جھگڑے ہی ختم نہیں ہو رہے، تو یہ کیسے منصوبے مکمل کریں گے؟ پارلیمنٹ لاجز کا یہ 2008ء کا کنٹریکٹ تھا، ہم کنٹریکٹر کو بھی جانتے ہیں، منصوبے میں تاخیر ہوئی جس کے باعث لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: قائمہ کمیٹی برائے داخلہ چیئرمین کمیٹی قومی اسمبلی نے کہا کہ سی ڈی اے
پڑھیں:
حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح کیا ہے کہ فی الحال پارٹی اور وفاقی حکومت یا عسکری قیادت کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات یا رابطے نہیں ہو رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر علی خان نے مذاکرات سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ملک کے سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے بجائے مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ 2024 میں جب پارٹی نے الیکشن مینڈیٹ چُرائے جانے کا مؤقف اپنایاتو چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اگر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کوئی تجویز لائیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی، مگر حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، ہم نے حکومت سے ملاقات کے لیے دو ہفتے انتظار کیا لیکن انہوں نے سنجیدگی نہیں دکھائی، اس لیے ہم فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنا نہیں چاہتے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان کی جماعت سیاسی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہی جمہوریت، پارلیمنٹ اور ملکی استحکام کے لیے بہتر راستہ تھا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے موقع ضائع کیا۔
خیبر پختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں سے متعلق گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر کئی آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں، جن میں جنوری، جولائی اور ستمبر کی کانفرنسیں شامل تھیں، انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کا ذکر ہماری پریس ریلیز میں موجود ہے، انہیں سیاسی رنگ دینا یا عام شہریوں کو نقصان پہنچانا کسی صورت درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے آپریشنز کے باعث بے گھر ہونے والے افراد آج بھی اپنے گھروں کی تعمیر مکمل نہیں کر سکے، اس لیے ایسے اقدامات انتہائی احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔